اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے 24جنوری “ورلڈ ایجوکیشن ڈے ” کیلئےمختص کیا گیا ہے۔اس دن کو عالمی سطح پرتعلیم کے فروغ کی آگاہی بڑھانے کے طور پر منایا جاتا ہے اور پاکستان میں پہلی مرتبہ2018 میں “انٹرنیشنل ایجوکیشن ڈے” متعارف کروایا گیا۔
2015میں عالمی اداروں کی جانب سے اقوام متحدہ کو اس مسئلے کی جانب توجہ دینے کی تجویز دی گئی تھی جس کی بنا پر اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کی طرف سے باقاعدہ قرارداد پیش کی گئی۔
پاکستان میں تعلیم کے عالمی دن کے موقع پر ایک
انتہائی افسوسناک اور ہتک آمیز واقع پیش آیا ، اس واقعہ کے پیش آنے پر آپ پاکستانی قوم کی انحطاط پزیری پر ہکا بکا رہ جائیں گے بلکہ تاسف سے ہاتھ ملتے رہ جائیں گےکہ ہم تعلیم یافتہ ہونے کے بعد بھی کس ذہنی قدر کمتری کا شکار ہئں اور مغرب کی اندھا دھند تقلید میں اور ماڈرن ازم انتہائی اخلاقی پستی کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں۔
واقعہ شہر قائد کے ایک انگریزی میڈیم پرائیویٹ سکول کا ہےجس میں ایک ابتدائی جماعت کے طالب علم کی توہیں اور تضحیک کی گئی صرف اس بناء پر کہ بچہ سکول میں اردو بول رہا تھا اور اسے انگریزی نہ بولنے کی پاداش میں اساتذہ کی جانب سے تضحیک کا نشانہ بنایا گیا، اس بچے کے منہ پر سیاہی لگائی گئی اور اس کے دوسرے ہم جماعت بچوں کو بھی کہا گیا کہ اس کی اس نا اہلی کا مذاق اڑائیں۔
کراچی سیویلائیزیش پبلک اسکول میں اردو بولنے پر مبینہ طور پر بچے کے منہ پر کالک لگادی گئی: متاثرہ بچے کے باپ کا دعویٰ pic.twitter.com/pWTZTlL1nz
— Tariq Habib (@tariqhabib1) January 27, 2023
کیا تعلیمی اداروں کا یہ مقصد ہے کہ اگر کوئی طالب علم انگریزی میں کمزور ہے یا روز مرہ کی بات چیت میں انگریزی نہیں بول رہا تو اسے باقاعدہ توجہ سے اس میں ماہر کیا جائے یا کہ اس کی اس کمزوری کو بنیاد بنا کر تذلیل کا نشانہ بنایا جائے!
ماں کے پیٹ سے تو کوئی بچہ سیکھ کر نہیں آتا اور
پاکستان میں بہت ہائی اسٹیٹس رکھنے والوں کے علاوہ کسی گھر میں روزمرہ کی بات چیت انگریزی میں نہیں ہوتی لہذا ایسے گھروں کے بچے اسکول آکر ہی ایسی دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرتے ہیں ، اور آپ ایک کم عمر بچے کے ساتھ ایسا رویہ اختیار کر کے اس کی خود اعتمادی حاصل کرنے کی اہلیت کو بنیاد سے ہی توڑ پھوڑ کا شکار بنا رہے ہیں
یہ آپکی ذہنی غلامی اور کمپلیکس کے علاوہ اور کچھ نہیں،بیرونی ممالک میں اپنی زبان کے علاوہ سب اختیاری زبانوں کے زمرے میں آتی ہیں اور کوئی دوسرے ملک کی زبان کی اندھا دھند تقلید میں اور اپنا تعلیمی اسٹیٹس اونچا دکھانے کیلئے اس اخلاقی تنزلی کا شکار نہیں ہوتا۔
طالب علم کی لائقی صرف انگریزی میں مہارت کی مرہون منت نہیں اور نہ ہی کامیاب زندگی کی ضمانت ہے بلکہ اپنی قومی زبان میں مہارت اور دوسری زبانوں پر عبور حاصل کرتے ہوئے اپنی زندگی کو کامیاب کرنا ایک مضبوط ضابطہ تعلیم و تربیت ہے۔
تعلیمی اداروں اور ان کے اساتذہ کا کام ہے طالب علم کو تعلیم میں ماہر کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی کردار سازی ، تربیت اور خود اعتمادی پیدا کرنا نہ کہ اس کے اندر کی کسی کمزوری کی بنیاد پرتضحیک و تذلیل کرنا اور نہایت دل گرفتگی سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں انگریزی میڈیم تعلیم کے فروغ کے چکر میں پڑھ کر ہم اپنے بچوں کو ایک پاکستانی قوم کے تہذیب و تمدن اور اخلاق سے بہت دور لے گئے ہیں۔
انگریزی پڑھنے کے ساتھ ساتھ انگریز کی معاشرت کو اپنے اوپر اتنا حاوی کر لیا کہ نوجوان نسل کردار اور اخلاق کی اس گہری گھاٹی میں گرتے جا رہے ہیں کہ ہمیں آئے دن اسکولز ، کالجز اور یونیورسٹیز میں ڈرگ ایڈکشنز، شراب نوشی اورجنسی اسکینڈلز کے بارے خبریں سنائی دیتی ہیں۔جہاں طالب علم نشے میں دھت اخلاق و کردار کی دھجیاں اڑاتے اور اپنی تہذیب و تمدن کا منہ چڑاتے دکھائی دیتے ہیں۔
تعلیمی ادارے طلبا اور طالبات کی کردار سازی میں ایک سنگ میل کی حثیت رکھتے ہیں اور اساتذہ روحانی والدین کا کردار ادا کرتے ہیں لیکن اب طالب علم پر محض گدھے کی طرح کتابیں لاد دی جاتی ہیں اور اخلاق و کردار انگریزی میڈیم کےگھن چکر میں کھو کر رہ گئے ہیں ۔