ماورائے عدالت فیصلے: عافیہ رائے

تعزیرات پاکستان میں موجود ایک آئینی شق 295 اور 298 کو قانون توہین رسالت کہا جاتا ہے۔اسی 295 شق (سی) کےمطابق توہین کی انتہائی سزا موت ہےاور 295 ( بی) توہین قرآن اور توہین رسالت کی سزا مقرر کرتی ہے۔

توہین کے زمرے میں کوئی گستاخانہ عمل، گستاخانہ رویہ اور گستاخانہ گفتگو یا بیان جو دیا گیا ہو یا لکھا گیا ہو سب شامل ہےاور ملزم عمر قید یا پھانسی کا سزاوار ٹھہرتا ہے اور جرمانے کی ادائیگی بھی پابند ہوگا۔

پاکستان میں توہین رسالت اور قرآن کے مرتکب افراد میں کچھ مسلمان بھی شامل رہے وہ چاہے اس امر کے مرتکب ہوئے یا شکوک و شبہات کی بنا پر سزاوار ٹھہرائے گئے۔ اس قسم کے کیسز کے حوالے سے دو، تین مراحل ہیں۔

پہلے مقامی پولیس کی سطح پرتحقیق کی جاتی ہےپھر ایس پی کی سطح پر تصدیق کے بعد معاملہ متحدہ علما بورڈ کے سامنے آتا ہے، ان کےساتھ امن کمیٹیاں بھی اس کام میں معاونت کرتی ہیں۔

لیکن اصل معاملہ جو دن بدن سنگینی اختیار کرتا جا رہا ہے یہ ہے کہ مذہب کے حوالے سے لوگوں کی برداشت بہت کم ہورہی ہے اور اس کے ساتھ ہی توہینِ مذہب کے کیسز میں اضافہ ہورہا ہے ایسے میں لوگ خود قانون ہاتھ میں لے کر انصاف کرنا چاہ رہے ہیں۔

ہم یہ دیکھتے آ رہے ہیں کہ کئی سالوں سے بہت سے مشتعل ہجوم نے توہین کے مرتکب سزاوار کو ہیبت ناک موت سے ہمکنار کیا تو حکومتی ادارے جن میں سب سے پہلے پولیس کا محکمہ زیر بحث آتا ہے کہ وہ ان مشتعل لوگوں کے جتھے کو اکٹھا کیوں ہونے دیتے ہیں جو اپنے تئیں ہی سزا تجویز کرکے بغیر کسی تصدیق شدہ بیان یا عمل کے ماورائے عدالت فیصلہ کر کے خون ریزی کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ایسے مشتعل ہجوم کو منتشر کیوں نہیں کیا جاتا۔

اگر موجودہ توہین کیس کو ہی لیا جائے جو ننکانہ میں پیش آیا، وڈیوز میں دیکھا جاسکتا ہے کہ کس طرح ہجوم تھانے کی چار دیواری کے اندر داخل ہوا
ایک شخص نے سیڑھی لگا کر تھانے کے اندر کود کر گیٹ کھولا اور دیوانہ وار سب لوگ جبکہ اس ہجوم میں نو عمر اور چند نابالغ بچے بھی شامل تھے۔

تھانے کے اندر داخل ہوئے اور توڑ پھوڑ کی کہیں بھی کوئی پولیس اہلکار نظر نہیں آیا اور سوال یہ بھی ابھرتا ہے کہ کسی طرح لاک اپ سے وارث نامی شخص کو نکالا گیا۔

کیا اس پر کوئی سیکیورٹی نہیں تھی جبکہ اس واقعے کے حتی الامکان ممکنات نظر آرہے تھے اور پھر اس کو گھسیٹے ہوئے اور تشدد کرتے ہوئے بھی ہجوم کو قابو کرنے کی کوشش کہیں نظر نہیں آتی اورآخر جب اس کا خاتمہ ہوگیا تب اس کی برہنہ لاش کو بس جلانے سے بچا لیا گیا۔

کیا پولیس اپنے دفاع کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس
بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے نہیں کیونکہ اسی
طرح کے ایک توہینِ مذہب کیس میں سزائے موت پانے والے ملتان کی بہاؤ الدین زکریا یونیورسٹی کے لیکچرار جنید حفیظ کےایک وکیل راشد رحمان کو مئی2014میں نامعلوم افراد نےان کے دفتر میں گھس کرقتل کردیا تھا۔

پھر پشاور یونیورسٹی کا جواں سال طالبعلم مشال بھی اسی طرح کے ایک تحفظ رسالت کے ہجوم کے ہاتھوں بے بنیاد صرف شکوک پیدا ہونے پر قتل کیا گیا۔

پاکستان کی عوام کی بڑھتی ہوئی اس جنونیت نے اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کی اور فی الفورفیصلہ کر ڈالنے کی عادت نے نوبت یہاں تک پہنچا دی کہ اب اقلیتیں دعوی کرتی ہیں کہ پاکستان میں تعصب کے تحت توہین کے نام پر غیر مسلم کمیونٹی کا قتل کیا جاتا ہے جس کا ایک ثبوت پاکستان میں ایک سری لنکن شہری کا قتل ہے۔

جوکہ ایک فیکٹری میں مینیجر کے طور پرکام کر رہا تھا ایسے بے شمار واقعات ہیں۔ جو سوال پیدا کرتے ہیں لہذا ہمیں ایک ذمہ دار قوم کا رویہ اختیار کرتے ہوئے قانون اور عدالت کو اپنے فرائض نبھانے کا وقت دینا چاہئے۔

ناموس رسالت اور قرآن سب کا ایمان ہے اس پرسمجھوتہ کرنے کا کسی مسلمان پر شائبہ بھی ظاہر نہیں کیا جاسکتا لیکن بطور ایک اسلامی ریاست آپ اس خونریزی اور جنونیت کو بڑھاوا نہ دیں اور ان تعلیمات کے پھیلاو میں علماء حضرات کو اپنا قلیدی کردار ادا کرنا چاہئے۔

Leave a Reply