8 مارچ کا دن خواتین کو خراج عقیدت پیش کرنے کا دن منتخب کیا گیا ہے ۔اس دن بہت سی خواتین کی اعلی کارکردگی کی بنا پر ایک مقام حاصل کرنے کی جدوجہد کو داد دی جاتی ہے، ان کی تگ و دو کو کامیابی کے ہار پہنائے جاتے ہیں ، بہت بڑی بڑی شخصیات کے حوالے دیئے جاتے ہیں۔
مگر میں بات کرونگی ان خواتین کی جنھوں نے اپنی زندگی اپنی ذات کے مقام کے حصول کیلئے گزار دی لیکن انھیں وہ مقام اور پذیرائی کسی طور حاصل نہ ہو سکی، اسی لئے میری خواہش ہےکہ 8 مارچ ان خواتین کا دن ہونا چاہئے جو غربت کی چکی میں پس رہی ہیں۔
دن رات مشقت میں گزار رہی ہیں کھیت کھلیان میں دہاڑی کرتی ہوئی خواتین، بھٹہ خشت پر مزدوری کرتی خواتین اور اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو صبح ایک ایک روٹی دے کر سارا دن اللہ کے توکل پر چھوڑ کر گھروں میں ماسیوں کے طور پر کام کرتی ہوئی خواتین کی جفا کشی کو سلام پیش کرنے اور داد دینے کا دن ہونا چاہیے۔
جو اپنی جوانی سے بڑھاپے تک کا سفر اسی تگ و دو میں طے کر دیتی ہیں اور ان کا یہ سفر لا حاصل ہی رہتا ہے کیونکہ خواتین کے عالمی دن کو ان مشقتوں اور جفا کشی کی صعوبتوں میں گزارنےوالی خواتین کے نام کہیں کسی پلیٹ فارم پر نمایاں نہیں ہوتے، لہذا اس دن کو عورت کے مقام، اس کے تشخص اور اس کے حقوق اس کو بغیر کسی عزر اور پس و پیش کے اس کے نام کئے جانے کے طور پر ایک عہد کے دن پر منانا چاہئے تاکہ عورت کو اپنے حقوق کی جنگ اپنے ہی خاندان اور معاشرے کے ساتھ نہ لڑنی پڑے۔
کیونکہ کچھ ایسی خواتین کا ذکر بھی لازم و ملزوم ہے جنھوں نے انا اور غیرت کے نام پر اپنی زندگیاں گنوا دیں جن میں سر فہرست چند ماہ پہلے شوہر کی حیوانیت کا شکار ہونے والی سارہ انعام ہیں ، 37 سالہ کینڈین ہائی پروفائل رکھنے والی اور یو اے ای میں اعلی عہدے پر فائز سارہ انعام کو ان کے شوہر نے نشے کی حالت میں ایکسرسائز کرنے والے ڈمبلز کے وار سے بے دردی سے قتل کر دیا گیا اور قاتل کے اعتراف کے باوجود ابھی تک انصاف نہیں نمٹایا گیا۔
“ہائےمجھ عورت کی قسمت کیا بتاوں،کیا کہوں،
کاٹتا ہےمیری شہ رگ میرا باپ بھی شمشیر سے۔
غیر چن دیتےہیں مجھ کو جیتے جی دیوار میں
اپنےغیرت میں جکڑتےہیں زنجیر سے۔”
کائنات میں رنگ بکھیرنے والا وجود آج وہی وجود زن خون کے رنگ میں رنگا ہے، نور مقدم کا بہیمانہ قتل ، اس کی لاش کا سر دھڑ سے علیحدہ
کچھ فاصلے پہ پڑے ملنا، نور مقدم کو باقاعدہ ارادے کے ساتھ گھر بلا کر اسے بے لباس کر کے دن دیہاڑے اسے موت کے گھاٹ اتارنا، گناہ صرف یہ کہ وہ ظاہر جعفر کی طرف سے دیئے گئے کسی بھی قسم کے پیغام یا ظاہر جعفر سے مزید تعلقات رکھنے پر راضی نہ تھی۔
تو ایک بڑے بزنس ٹائیکون کے بگڑے بیٹے سے جو امریکن نیشنیلٹی رکھتا ہے اور بہت سی کمپنی کا مالک ہے یہ برداشت نہ ہوسکا کے ایک سابق سفیر کی بیٹی اسے یوں ٹھکرا دے تو اس نے اس سے جینے کا حق چھین لیا۔
ظاہر جعفر کو بچانے کے لئے وہی پرانے داو پیچ کہ ڈرگ لیتا ہے ، شراب نوشی کی وجہ سے اسٹیٹ آف مائنڈ ڈسٹرب ہوگیا ہوا تو کیا اسٹیٹ آف مائنڈ میں یہ ساری پلاننگ فیڈ ہوگئی کہ کسطرح نور مقدم کو گھر بلا کر ذہنی اور جسمانی بہیمانہ تشدد کر کے قتل کرنا ہے اور اس کے بعد بیرون ملک فرار کے تمام بندوبست کر لئے گئے !!
قرت العین کے بارے میں کیا کہا جائے جو گھر کی چار دیواری میں رہ کر دس سال سے خالد میمن جیسے درندہ صفت خاوند کے جبر اور زیادتی کا نشانہ بنتے بنتے اس جہان فانی سے کوچ کر گئی، اس درندے نےچار بچوں کی ماں کو ان کے سامنے تشدد کا نشانہ بنایا اکثر و بیشتر اور پھر موت کی وادی میں دھکیل دیا،جس نے دس سال اس وحشت زدہ زندگی کو برداشت کیا اور طلاق کی لعنت سے بچتے بچتے جان سے ہاتھ دھو بیٹھی۔
لہذا یہ کہنا کہ عورت گھر سے نکل کر غیر محفوظ ہے قطعا درست نہیں دراصل عورت غیر محفوظ ہے مرد کی انانیت اور آنر کلنگ کے فرسودہ سکول آف تھاٹ سے، اس معاشرے کا آنر کلچر جو ان شیطان صفت مردوں کے ہاتھ محفوظ کر رہا ہے کہ اگر عورت تمھاری تابعداری نہیں کرتی تو اسے زد و کوب کرو، اگر عورت کے لباس میں کمی بیشی ہے تو اسے زیادتی کا نشانہ بناو اور اگر عورت اپنی پسند کی زندگی گزارنا چاھے تو اسے عزت کے نام پر قتل کر دو۔
جب ہر طبقے کی عورت مسلسل جبر اور نا انصافی کا شکار رہے گی تو پھر اسے اپنی ذات کے حصول کیلئے کوئی نہ کوئی در تو کھٹکھانا پڑے گا چاہے وہ عورت مارچ کا در ہو اور آپ چاہتے ہیں کہ یہ در بھی عورت پر بند کر دیا جائے، عورت مارچ کو تنقید کا نشانہ بنانے والے معصوم اور بے گناہ عورت کے قتل پر آسماں سر پر کیوں نہیں اٹھاتے ؟
عورت مارچ میں شامل عورتوں کو سنگسار اور جوتے مارنے کے مشورے دینے والے ان وحشی جانوروں اور درندوں کو سنگسار کیوں نہیں کرتے!!
“اُن کو ناموس بھی،عزت بھی،پذیرائی بھی
مجھ کو رونے کو میسرنہیں تنہائی بھی”