سِکی لیک، چکوال کا سفر : سفرنامہ از ظاہر محمود

بَدلیاں اور سورج آنکھ مچولی کھیل رہے تھے- وقتاً فوقتاً بجلیاں کڑکنے کی آواز بھی آ جاتی- کبھی دھوپ میں ہلکی ہلکی بوندیں گرنا شروع ہو جاتیں- ہمارے ہاں دیہاتوں میں ایسی بارش یا بوندا باندی کو گیدڑی کے ویاہ سے تعبیر کیا جاتا ہے- پُرکھے بتاتے ہیں کہ جب یوں بارش ہووے کہ دھوپ بھی چمکے اور بجلی بھی کڑکے تو سمجھیو کہیں نہ کہیں کسی جنگل میں کسی گیدڑی کا ویاہ ہو رہا ہے- تعجب کی بات تو یہ ہے اور سچ پوچھیں تو آج تک اس کی منطق بھی سمجھ میں نہیں آ سکی کہ اسے گیدڑی کا ویاہ ہی کیوں کہا جاتا، اب ظاہری سی بات ہے گیدڑی کا ویاہ کسی گیدڑ سے ہی ہو گا تو اسے گیدڑوں کی شادی کیوں نہیں کہا جاتا- خیر یہ ہمارے بڑے دیومالائی قصوں اور غیر منطقی کہانیوں پہ زیادہ انحصار کرتے تھے، جیسا کہیں سے سن لیا بس اسی پہ کاربند ہو گئے- ہم چکوال سے چوآسیدن شاہ کی طرف جا رہے تھے- سطح مرتفع پوٹھوہار دنیا کے خوبصورت ترین لینڈ سکیپ سے مزین ہے- ہر طرف سبزہ ہے، ہریالی ہے- پہاڑیوں کے نظارے ہیں- درمیان میں وادیاں ہیں- وادیوں میں مرغزار ہیں- مرغزاروں میں قدرت کے راز ہیں- کہیں جھیلیں ہیں، کہیں چشمے تو کہیں آبشار ہیں- خدا نے اس خطہءِ پوٹھوہار پہ خوب حسن لٹایا ہے- ذرا سا بادل ٹُھمکا لگائے تو جی مچل جائے- چراگاہوں پہ چُگتے چوپائے دور سے دیکھنے والوں کو خیرہ کرتے ہیں، گو کہ اپنی طرف بلاتے ہیں- جا بجا سٹون گارڈن بچھے نظر آتے ہیں- چوآسیدن شاہ جائیں تو آپ کو اکثر سٹون گارڈن اپنی طرف متوجہ کریں گے جہاں زمین پہ دیوہیکل پتھر دھرے پڑے ہیں اور بعض تو ایسے زرخیز پتھر ہیں کہ انہی میں سے پودے درخت بن چکے ہیں- یہ اس علاقے کے ایسے کافر نظارے ہیں کہ راہ گیروں کو اپنی منزل سے پھیر دیتے ہیں-

ہمارے پیشِ نظر سِکی لیک تھی- حال ہی میں ضلع چکوال کے گردونواح میں بے شمار چھوٹی چھوٹی جھیلیں، چشمے اور آبشاریں دریافت ہونا شروع ہوئیں- کوہستانِ نمک کے ان سلسلوں میں قدرت کے صدیوں پہ محیط راز اور خزانے پوشیدہ ہیں- کہیں اندر پہاڑیوں سے ندیاں جھانکتی ہیں تو کہیں چشمے ابلتے ہیں- سویک لیک، نیل واں، کلرکہار جھیل اور دیگر کئی چھوٹے موٹے ڈیموں کی تعمیر نے ایسا تاثر ابھارا کہ چکوال کو شہیدوں کی سرزمین کے ساتھ ساتھ جھیلوں کا شہر بھی کہا جانے لگا ہے- یہ جھیلیں اپنے اندر لاکھوں سال کے شواہد سموئے ہوئی ہیں- ان میں سے بعض کے پانی کے رنگ سبزی مائل ہیں تو بعض کے نیلے سمندری رنگ کے، بعض کا پانی انتہائی کھارا ہے تو بعض کا انتہائی اطمینان بخش- ان جھیلوں کی تہوں میں سمندری مخلوقات کی باقیات ملتی ہیں- کہیں سپونجیز کی مختلف سپی شیز دریافت ہوئی ہیں تو کہیں Molluscs کے خول اور کیکڑوں کی انواع نظر آئی ہیں- مختلف گیسیں اور معدنیات ان کے پانیوں میں تیرتی ہیں- دنیا جہاں سے سیاح یہاں آنا شروع ہوئے ہیں- رستے دشوار گزار اور کٹھن ہیں- مسافتیں طویل ہیں- پیدل سفر بہت صبر آزما ہے- یہ جھیلیں یا تو پہاڑیوں کے عین وسط میں موجود ہیں یا پھر گھنی وادیوں کے مرکز میں- سو ان میں سے کسی بھی جھیل تک پہنچنے کے لیے آپ کو اترائی-چڑھائی-اترائی یا پھر چڑھائی-اترائی-چڑھائی کی فارمولا ریس سے گزرنا پڑتا ہے-

سِکی لیک، چوآسیدن شاہ کے معروف قصبے آڑہ بشارت سے ذرا آگے سِکی گاؤں سے ملحقہ ایک خوبصورت وادی میں موجود ہے- سِکی گاؤں میں گاڑی کھڑی کر کے بقیہ سفر پیدل طے کرنا پڑتا ہے- ایک پگڈنڈی نما رستہ گاؤں سے جھیل تک لے جاتا ہے- یہ رستہ کوئی اتنا صاف ستھرا یا تراشا خراشا ہوا نہیں ہے- نازک مزاج حسینوں کی طبیعت پہ گراں بھی گزر سکتا ہے- جنگلی پھولدار پودے، گلاب، کِکری اور دیگر انواع و اقسام کے درخت جھیل تک رقص کناں رہتے ہیں- بعض جگہوں پر ایسے خاردار پودوں اور تنگ و پیچ دار رستوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ بے اختیار وہ واقعہ یاد آ جاتا ہے کہ جس میں تقوی کو خاردار جھاڑیوں میں سے دامن بچا کر نکلنے سے تشبیہ دی جاتی ہے- کوئی پونے گھنٹے کی ٹریکنگ کے بعد جھیل کے آثار نظر آتے ہیں- محکمہ سیاحت والوں نے وہاں جانے والوں کے لیے فقط یہی ایک مہربانی کی ہے کہ ایک شیڈ اور چند کرسیاں لگوا دی ہیں تا کہ کسی نے بیٹھنا ہو تو بیٹھ سکے- اس جاں گُسل ٹریکنگ کے بعد سانس پھولنا، ٹانگوں کا ساتھ چھوڑنا، طبیعت کا بیزار ہونا اور خاص کر پیاس لگنا تو ضروری امر ہیں- مگر یقین جانیے جونہی پہلی نظر قدرت کے اس حسیں شاہکار پہ پڑتی ہے تو ایک سکون کی لہر پورے جسم میں دوڑ جاتی ہے- ٹھنڈی سانس ابھرتی ہے- وہاں پہ چاروں طرف بلند و بالا پہاڑیاں اور طرح طرح کے فانا اور فلورا پائے جاتے ہیں- یوں محسوس ہوتا ہے جیسے دو آنکھوں سے یہ منظر سمویا نہ جائے گا- ایک طرف ایک بڑے پتھر کے اوپر سے پانی یوں گِر رہا ہے جیسے خوشی کے موقع پر چراغاں کیا ہو اور دودھیے سفید پانی کے قطرے روشنیاں بن کر قطار اندر قطار نازکی سے گِرتے ہوں- جھیل کے پانی میں شامل ہوتے ہی یہ دودھیا سفید قطرے سبزی مائل اور بعض جگہوں پر نیلا رنگ چڑھا لیتے ہیں- بعض منچلے اس پھسلن والے پتھر پہ چڑھ کر چھلانگیں لگاتے ہیں تو بعض فقط پانی میں سانڈ کی طرح گھس کر اچھلتے اور قلا بازیاں کھاتے ہیں- سانڈ اس لیے کہا کہ جب وہ اپنی قمیضیں اتار پھینکتے ہیں تو اکثر ڈھول نما بے ہنگم سا شکم سر نکالتا ہے جس پر وقفے وقفے سے بالوں کی فریکوئنسی کم زیادہ ہوتی صاف دکھائی دیتی ہے- نیز یہ کہ جب یہ سارا منظر پانی میں بھیگتا ہے تو بے ساختہ سانڈ کہنے کو جی چاہتا ہے- ہمارے ہاں تو گلی کوچوں، گھر بار کی خوبصورتی پہ توجہ نہیں دی جاتی، جسمانی خوبصورتی کو تو ویسے ہی بے حیائی خیال کرتے ہیں- خدا نے اگر انسان کو خوبصورت ترین شکل میں پیدا کیا ہے تو کم از کم ٹوٹ بٹوٹ جیسا منہ اور انور لٹور جیسی توند نکالنے میں شرم کھانی چاہیے، چونکہ بھدی صورت میں رہنا بھی خدا کی کاریگری کی توہین ہے-

جھیل بعض جگہوں پہ کم گہری ہے اور بعض پہ بہت زیادہ- قیاس کیا جاتا ہے کہ اس کے پانی کے جو مختلف رنگ پھوٹتے ہیں وہ تہہ میں موجود سپونجیز کی وجہ سے ہیں- انہی مظاہر کی بنیاد پر یہ دعوی بھی عام کیا جاتا ہے کہ یہ خطہ لاکھوں سال پہلے کسی سمندر کا حصہ رہا- وہاں ایک طرف سے ایک گُپھا نظر آئی- وہ بڑی تاریک تھی- اندر سے پانی رِس رہا تھا جو بالآخر جھیل میں ہی گِر رہا تھا- لوگ بمع اہل و عیال کچن اٹھائے پہنچے ہوئے تھے- انسان کا عمل دخل یہاں بہت کم تھا مگر اس کے باوجود جھیل کے گردونواح کو آلودہ کرنے کے لیے آنے والے سیاحوں نے پلاسٹک بیگز، شاپر، لفافے، پیکٹس اور بوتلیں پھینکی ہوئی تھیں- بعض لفافے اور بوتلیں تو جھیل کے پانی میں تیرتی ہوئی صاف نظر آ رہی تھیں- اس خوبصورت گھنی وادی میں کالے بھورے تیتر، بٹیر، مرغابیاں، طوطے، چکور، نیلچاہ، ہُدہُد، جنگلی خرگوش، پنجاب اڑیال، ہرن، گیدڑ، لومڑ، سیہہ، جنگلی بکریاں، بھیڑیے اور نجانے کون کون سی جنگلی حیات مستیاں کرتی پھرتی ہے- سرخ گلاب لہلہاتے ہیں- چوآسیدن شاہ کا گلاب ایشیا کا سب سے بہترین گلاب مانا جاتا ہے- اس سے گُلقند اور عرقِ گلاب بنایا جاتا ہے- بابر بادشاہ جب یہاں سے گزرا تو اس نے ان گلابوں کو بہت پسند کیا- بعد ازاں وہ اسی خطے سے گلقند اور گلاب منگوایا کرتا تھا-

ہوا کے دوش پہ پنچھی اٹکھیلیاں کرتے ہیں- گھاس سرسراتا ہے- بلبل چہچہاتا ہے- پانی نیچے وادی میں بہتا چلا جاتا ہے- خدا خود رومانس کرنے یہاں آتا ہے- شِیو، کرشنا، رام کو بلاتا ہے- پھر گِیتی پہ راگ امن کے گاتا ہے- جو بھی دیکھے اس کا جی للچاتا ہے-

Leave a Reply