اردو اور پاکستان : پروفیسر باغی

عام طور پر چیزیں جتنی قریب ہوں اتنی ہی واضح ہوتی ہیں۔ تاریخ کا اصول اسکے الٹ ہے۔ اس میں چیزیں جتنی دور ہوں اتنی ہی واضح اور صاف نظر آتی ہیں۔ تحریک پاکستان اور اردو کی تشکیل پر ایک نظر کریں تو بات آئینہ ہوجائے گی۔
آج مڑ کر دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے ایک زبان ملک کی تلاش میں تھی۔ آخر وہ اردو ہندی تنازعہ ہی تھا جس نے ہندوستان کے سب سے بڑے دو تہذیبی گروہوں کو مدمقابل کردیا۔ 1857ء کی جنگ آزادی میں مسلمانوں کے حریف انگریز تھے۔ اردو ہندی تنازعے میں فریق ہندو تھا۔ یہ ایسا نازک مسئلہ تھا کہ سر سید مرحوم جیسے کٹر قوم پرست ہندوستانی نے متاسفانہ انداز میں اپنے دوست کمشنر لکھنو سر ولیم شیکسپئیر کو جو جملہ کہا،تاریخ نے اسے محفوظ کرلیا۔

”اب یہ دونوں قومیں کبھی اکٹھی نہیں رہ سکتیں“

اس لیے کہ سرسید مرحوم سے بڑھ کر کون یہ بات جان سکتا تھا کہ رسم الخط کو بدلنے کا مطلب کیا ہے۔ یہ رسم الخط مسلمانوں کی تہذیب اور روایت کا اظہار تھا۔ برصغیر کے مسلمان اس میں اپنے مذہب کی جھلک دیکھتے تھے، بھلا اس میں تبدیلی وہ کیسے منظور کرتے۔ یہی تنازعہ سیاسی شعور کی بیداری اور دو قومی نظریے پر منتج ہوا۔ باقی عوامل سے انکار نہیں لیکن اس وقت نہ مسلم لیگ تھی اور نہ کوئی سیاسی بیداری۔

برصغیر کے مسلمان ایک قوم تھے اور ان کی زبان اردو تھی۔ جسکی حفاظت انہیں ہر صورت کرنا تھی۔ شاید یہی وہ موڑ تھا جب مسلمانوں کے اجتماعی شعور نے ایک علیحدہ ملک بنانے کا فیصلہ کیا۔یہ فیصلہ آسان نہیں تھا۔ پاکستان کی تخلیق کو معجزانہ کہا جاتا ہے۔ کوئی مبالغہ نہیں۔ پاکستان کہیں موجود نہ تھا جسے آزاد کروایا گیا ہو۔ یہ خلق ہوا تھا۔ پیدا ہوا تھا۔
اردو کی تخلیق بھی حیران کن ہے، عربی اور فارسی جیسی زبان بولنے والوں کو بھلا نئی زبان کی کیا ضرورت تھی۔ یہ تو شاید برصغیر کے نومسلموں کے لیے اللہ تعالی کا تحفہ تھا۔ ع ”میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے“۔ یعنی یہاں کے لوگوں کو عقیدے کے ساتھ نئی زبان بھی مل گئی؎۔

اسلام نے جہاں دنیا کو توحید سے روشناس کیا، وہیں اس نے تہذیب و تمدن کی آبیاری بھی کی۔ جب یہ پیغام عرب کے ریگزاروں سے نکل کر دنیا کے پاس پہنچا تو اس نے قوموں کی تقدیریں بدل دیں۔ منظر نامہ ء عالم میں جو تبدیلی آئی وہ آج بھی محسوس حقیقت ہے۔ تبدیلی کی تکریم دیکھیے کہ حبشہ، سوڈان، مصر، مراکش، الجزائر اور کتنے ہی غیر عرب لوگوں کی زبان عربی بن گئی اور آج تک ان کی یہی زبان ہے۔

عجمی لوگوں میں یہ تبدیلی دوسر ی طرح ظہور پذیر ہوئی۔ علامہ اقبال سے پوچھا گیا کہ ایک جملے میں بتائیے کہ قرن اول کے اسلام کا سب سے بڑا کارنامہ کیاتھا؟ عارف مشرق نے فرمایا ”فتح ایران Conquest of Iran“۔ اس سے مراد صرف آج کا ایران نہ تھا بلکہ وہ سارا علاقہ جو خراسان کے نام سے معروف تھااور وسط ایشیا تک جاتا تھا۔ جہاں سے فقہ و کلام کے عظیم امام پیدا ہوئے۔ اس کے علاوہ تقریباً سارے ہی صوفی سلسلے وہیں سے شروع ہوئے۔ فارسی بولنے والی ان قوموں نے عربی کو دینی ومذہبی علوم کے لیے مخصوص کرلیا۔ چونکہ قرآن و حدیث کا سارا ذخیرہ اسی زبان میں ہے لیکن علمی و معاشرتی سطح پر فارسی کا راج تھا۔برصغیر پر جن لوگوں نے حکومت کی، ان کی علمی و معاشرتی زبان یہی فارسی تھی۔ ان کا جب مقامی لوگوں سے میل جول ہوا تو وہ تیسری عظیم الشان زبان پیدا ہوئی جسے ہم اردو کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ میل جول کی زبان بن گئی جو علماء، صوفیاء، اور اعلی ادبی شخصیات کے اردگرد گھومتی، یہ لوگ عموماً عربی و فارسی کے عالم ہوتے تھے۔ یوں یہ دلچسپ حقیقت سامنے آتی ہے کہ جو لوگ اسلام قبول کرتے، وہ اس زبان کو بھی قبول کرلیتے تھے۔

ذرا ملاحظہ فرمائیں کہ عربی کے صافی اور فارسی کے شیریں چشمے سے، دونوں کی خوبیوں میں ملفوف، مقامی بولیوں، مثلاً گجری، ہندی، سرائیکی، پنجابی اور کھڑی جیسی بولیوں کو، اپنے اندر لپیٹتی سمیٹتی یہ نئی زبان معاشرتی سطح پر یوں چھا گئی کہ آج دنیا کی پانچویں یا چھٹی سطح پر سب سے زیادہ بولی اور سمجھی جانے والی زبان بن گئی ہے۔ یہاں بے اختیار جون ایلیا یاد آگئے۔

؎ تمہیں معلوم ہے اردو جو ہے پالی سے نکلی ہے
یہ اس کی اک نہایت پرنمو ڈالی سے نکلی ہے

اس کی نمو کا یہ حال تھاکہ مختصر سی تاریخ کے باوجود اس زبان نے میر، غالب، انیس اور اقبال جیسے نابغے پیدا کردیے۔ اردو کا تعلق برصغیر کے مسلمانوں سے تھا اور ہے۔ اسی شعور نے علیحدہ قومیت کا تصور دیا اور تحریک پاکستان کا آغاز ہوا۔ اب ظاہر ہے پاکستان کی زبان اردو ہی ہوسکتی تھی اگرچہ یہاں درجنوں مقامی زبانیں بولی جاتی تھیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کی جدوجہد سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی ریاست وجود میں آئی۔ اس کی قومی زبان اردو ٹھہری۔ ہم نے دونوں کے ساتھ جو سلوک کیا وہ کسی تبصرے کا محتاج نہیں۔ جوں جوں ہمارا رشتہ اپنی زبان سے کمزور ہوا، ہمارا ملک کمزور ہوا۔

دنیا بھر کے دانشور اس بات پر یک زبان ہیں کہ اپنی زبانوں میں بنیادی تعلیم کے بغیر تخلیقی سطح کے لوگ پیدا نہیں ہوسکتے۔ ہاں، مستری اور کلرک، گھٹیا نقال اور بھانڈ سینکڑوں کے حساب میں ملیں گے۔ تدریس کے شعبے میں ایک عمر گزار کے مجھے اندازہ ہوا کہ ہم نے کیسا کیسا خلاق آدمی صرف انگریزی کے چکرمیں برباد کرلیا۔ زبان صرف گرامر کے اصولوں کا نام نہیں ہوتا۔ یہ احساسات، خیالات، اور عقیدے و عمل کو ظاہر کرتی ہے۔ رابطے کا فرض انجام دیتی ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ جو زبان بولتے ہیں، غیر محسوس طریقے سے اس کی تہذیب، تمدن، روایت سے اثر قبول کرتے ہیں۔ زبانوں کا ایک دوسرے سے رشتہ ہے۔ جیسے یورپی زبانیں، اور ان میں سب سے یتیم اور بے آسرا اور اظہار سے محروم زبان انگریزی ہے۔ اس میں جو کچھ ہے وہ فرانسیسی، اطالوی، جرمن اور ہسپانوی زبانوں کی دین ہے۔ یوں آپ دیکھیں تو ساری مغربی تہذیب رشتے دار ہے۔ اور اس زبان کے بولنے والے لامحالہ اس کے کلچر اور تہذیب سے اثر قبول کرتے ہیں۔ یہی صورت اردو کی ہے۔ اس کی تو پیدائش بھی فارسی اور عربی سے ہوئی۔ عربی وحی کی زبان ہے تو فارسی کی شیرینی کی دنیا معترف ہے۔ اس میں جو ذخیرہ ء ادب موجود ہے، دنیا اس کی نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اور ہمارا یہ حال ہے کہ جو ناقدری ہم نے پاکستان کے ساتھ روا رکھی، وہی اپنی زبان کے ساتھ رکھ رہے ہیں۔ جب تک ہم اپنی زبان کی قدر نہیں کرینگے، ہمارے ملک کی قدر نہیں ہوگی۔ ہماری تہذیب وروایت کی قدر نہیں ہوگی۔ پاکستان کے وجود کیلیے اردو ناگزیر ہے۔

وا حسرتا، کبھی ایک زبان ملک کی تلاش میں تھی، آج ایک ملک زبان کی تلاش میں ہے۔

Leave a Reply