جون میں دسمبر، خدا کی رحمت یا آزمائش؟: زینب یاسین

اور پھر وہ خدا تمہیں مشکلات کی زنجیروں میں، خوفزدہ کر دینے والی تاریکی میں، اورکسی بھی طرح کی مشکِل میں مصیبت میں کیسے تنہا چھوڑ سکتا ہے جو ہر شام تمہارے گرمی سے جھلس جانے والے بدن کو تسکین بخشنے کے لئے، اس روح زمین پر باران رحمت نازل کرتا ہے ۔

اسے تو تمہاری گرمی میں نکلی ہوئی آہ تک برداشت نہیں ہوتی وہ کٹھن حالات میں تمہیں تنہا کیسے چھوڑے گا.وہ بند آنکھوں کے ساتھ اپنے ذہن میں خدا اور اس کی مخلوق کے تعلق کا تصور کر ہی تھی کہ اچانک جون کے دنوں میں اس ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اسے اس سوچ کے دروازے پر لا کر کھڑا کر دیا کہ گرمیوں کی سخت رات میں ہی تو ہوا کے پرسکون جھونکے کی امید لگا کے رکھنا انسان کا کل ایمان ہے۔

یہی ایمان، یہی امید انسان کو خدا سے جوڑے رکھتی ہے اور پھر صحرا میں چشمے کا پھوٹ جانا ہی انسان کو اس خدا کے خدا ہونے کا یقین دلاتا ہے۔یہی یقین محبت کی سیڑھی کی بنیاد ہوتی ہے ۔خدا اور انسان کی محبت کا اندازہ لگایا ہی نہیں جا سکتا۔

ابھی وہ اسی سوچ میں گم تھی کی اچانک بارش کی ایک ٹھنڈی بوند اس کے چہرے پر پڑی، اور وہ اپنے تصورات کی دنیا سے واپس اس حقیقی دنیا میں آ گری جہاں خدا موجود تو تھا لیکن اس کے ہونے کے احساس کو محسوس کرنا اس کے لیے مشکِل معلوم ہو رہا تھا۔

یہ حقیقی دنیا تھی جہاں اُس نے اپنی زندگی کے تمام دکھوں اور دردوں کو اپنی ذات سے آزاد کیا تھا۔ یہاں منطق اور فلسفہ تھا۔ یہاں محنت اور مشقت تھی۔ یہاں یقین کو چشمے لگے تھے ، یہاں اُس اندھے اعتبار کی کمی تھی جو اُس کو اپنی تصوراتی دنیا میں اُس قدیر ذات پر تھا۔یہاں لاجک اور سائنس سے خدا اور انسان کا تعلق بن رہا تھا۔

ہر واقعے کی ہونے کی وجہ دریافت کی جا رہی تھی۔
اس کے لیے تو یہ ہوا کا بارش میں تبدیل ہونا نہ تھا۔ بلکہ دو منفرد سوچوں کی آپس میں جنگ تھی ۔ یوں محسوس ہو رہا تھا کہ ذہن کے ایک حصے کو صوفی نے گھیر لیا ہے اور دوسرے پر کوئی منطق سے محبت کرنے والا مفکر بیٹھا ہے۔ کبھی ایک کی دلیل کو ذہن تسلیم کر لیتا ہے تو کبھی دوسرے کی بات سے دل موم بن جاتا ہے۔

کیا یہ ذہن اور دل کی لڑائی تھی؟ وہ اسی سوچ میں گم تھی۔ چند سوالوں کا جواب تلاش کر رہی تھی۔ کیا زندگی میں پیش آنے والے تمام واقعات معجزات ہیں؟ یا ہر واقعے کی پیچھے ایک وجہ چھپی ہے جس کی تلاش واجب ہے۔ کیا گرمی میں ٹھنڈی ہوائیں چلنا انسان کی بے صبر اور عدم برداشت فطرت کو سہارا دینا ہے یا گلوبل وارمنگ ہے جس کا حل سائنسدان تلاش کر رہے ہیں۔

محبت کی نگاہ سے دیکھوں تو خدا کی بےلوث محبت ہے ،ذہن کی آنکھ کی حوالے کر دوں تو ایک آزمائش۔ انہیں سوالوں پر وہ رات گزر گئی۔ لیکن اس ذہن میں وہ جنگ جاری تھی اور اب اس چلتی جنگ نے تجسس کو جنم دے دیا ہے۔

Leave a Reply