جماعت اسلامی کا کرپٹ ترین سیاست دان اور سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی سینٹ کے انتخابات میں حمایت کرنے پر پریشان ہونے والے اگر ماضی کے دریچوں میں جھانکیں تو یہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کی”بی ٹیم”کہلانے والی جماعت اسلامی ہی تھی اور اس سے پہلے پی۔این۔اے کی تحریک کے دوران ان کا کردار یاد کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
رفیق احمد باجوہ پاکستان کی سیاست کا وہ نام تھا جس کا تعلق جے یو آئی سے تھا اور 1977 کے عام انتخابات کے موقع پر تشکیل دیئے جانے والے پاکستان قومی اتحاد کے پہلے سیکرٹری جنرل بنے تھے۔ نہایت کم عرصہ میں اپنی جاندار تقریروں اور دبنگ انداز کی وجہ سے ایک اوسط درجے کے وکیل سے ملکی سطح کے اعلی سیاستدان بن گئے تھے لیکن ان کی ایک سیاسی غلطی نے ان کو سیاست کی انتہائی بلندیوں سے گمنامی کی اتھاہ گہرائی میں پھینک دیا تھا جو کہ ان کی وفات تک جا ری رہا۔ انہوں نے حکومت کے خلاف احتجاج کے دوران جماعت اسلامی کے اکابرین کی مرضی سے اس و قت کے وزیراعظم ذولفقار علی بھٹو سے ملاقا ت طے کر لی اور ان کی میٹنگ ختم ہونے سے پہلے ہی ان کی ملاقات کا چرچہ گلی گلی پہنچ چکا تھا اور اس وقت کے پریس کے ذریعے پاکستان بھرمیں ملاقات کی خبر پہنچ گئی اور یہ خبر پہچانے والے کوئی اور نہیں جماعت اسلامی ہی کی قیادت تھی۔
رفیق احمد باجوہ کو نہ صرفPNA کی سیکرٹری جنرل شپ سے ہاتھ دھونے پڑے تھے بلکہ ان کی سیاست کا بھی خاتمہ ہو گیا تھا اور جماعت اسلامی کے پروفیسر غفور کو پاکستان قومی اتحاد کا نیا سیکرٹری جنرل بنا دیا گیا۔اس ملاقات کے بعدرفیق احمد باجوہ کا سیاسی مستقبل ہمیشہ کے لیے ختم ہو گیااور پاکستان ملک و قوم کا درد رکھنے والے ایک سیاست دان سے محروم ہو گیا۔