فتنوں اور آزمائشوں کے اِس دور میں ایک ہی تصویر کے دو رخ جو اکثر مردوں اور عورتوں میں دیکھنے میں آ رہے ہیں ، اور گھروں کی فضاؤں میں گھٹن اور حبس بڑھتا چلا جا رہے ، اسی گھٹن کے سبب آبادیاں بربادیوں میں بدل رہی ہیں۔۔۔!
بے حد اہم اور ضروری نوٹ : نہ تو تمام مرد ایسے ہوتے ہیں اور نہ ہی تام عورتیں ایسی ہوتی ہیں ، ہاں ایسے لوگوں کی تعداد کثیر ہے جو انہی کاموں میں پڑ کر اپنی زندگیوں سے سکون اور چین کو ختم کر چکے ہیں ، کاش اس تحریر کے پڑھنے والوں کے بھیجے میں یہ ساری باتیں گُھس کر اُنہیں برے اعمال سے روک دیں ، برے رویوں سے اجتناب برتنے پر مجبور کر دیں، آمین ثم آمین یا رب العالمین
پہلا رخ
عورت بد زبان و بد اخلاق ہے ، اُس کے ہر برے رویے کو اور چھوٹی چھوٹی بات کا بتنگڑ بنا کر جھگڑے کرنے کو ، ہر وقت شکوے شکایات کے دفتر کُھولے رکھنے کو ، گھر میں داخل ہوتے ہی یہ ختم ہو گیا وہ ختم ہو گیا ، یہ کام ہونے والا ہے ، وہ ہونے والا ہے ،
سکون کے دو سانس بھی نہ لینے دینے کو ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر روٹھ کر منہ پھلا لینے کو ، ناراضگیاں جگا جگا کر میکے جا بیٹھنے کو ، غصے میں اپنے ہی گھر کی چیزیں اٹھا اٹھا کر پھینکنے کو ، مرد چپ چاپ برداشت کرتا ہے ، اُس کی اِن حرکتوں پر اسے کچھ نہیں کہتا بلکہ چلیں کوئی بات نہیں کہہ کر اِس کی غلطیوں اور کوتاہیوں پر معافی کا قلم پھیر دیتا ہے۔
وہ ایسا کر تو گزرتا ہے لیکن ایسا کرتے ہوئے اُس کے دل پر ایک دراڑ پڑ جاتی ہے ، اور دوسری طرف عورت معافی مل جانے ، ڈھیل اور مہلت کے مل جانے ، سزا و جزا ، پوچھ تاچھ نہ ہونے پر اپنے دل میں ایسے مرد کے لیے میٹھے میٹھے جذبے جگا لیتی ہے اور وہ مرد اُس کے دل کے ایک حصّے پر قابض ہو جاتا ہے۔
زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ وہ عورت اپنی غلطی اور کوتاہی بھول جاتی ہے اور دوبارہ وہی سب کچھ کر گزرتی ہے جس پر پہلے معافی مانگنے پر معاف کی جا چکی ہوتی ہے ، اور اِس بار بھی اُسے معافی مل جاتی ہے ، لیکن مرد کے دل پر پڑی ہوئی دراڑ تھوڑی اور زیادہ گہری ہو جاتی ہے۔
یوں ہر دفعہ معاف کرنے پہ عورت کے دل میں اُس مرد کے لیے محبت و الفت بڑھتی چلی جاتی ہے جبکہ مرد کے دل پر پڑی ہوئی دراڑ گہری اور گہری ہوتی چلی جاتی ہے ، اور ایک دن مرد کا دل دو لخت ، دو ٹکڑے ہو جاتا ہے ، کیونکہ برادشت کی بھی ایک انتہا ہوتی ہے۔
دل دو لخت ہو گا تو وہ رشتے والے کاغذ کے بھی دو ٹکڑے کر دے گا ، اور یہ وہ دن ہو گا جب وہ اُس عورت کے انگ انگ پر گہری چھاپ چھوڑ چکا ہو گا اور عورت کے عضو عضو میں اُس مرد کی محبت رچ بس چکی ہو گی ، لیکن اپنی بد مزاجی و بدکلامی کے سبب مرد کے دل میں موجود اپنی محبت کے آخری احساس سے بھی محروم ہو چکی ہو گی ، محبت کا احساس دو لخت ہو چکا ہو گا۔
رشتے والے کاغذ کے دو ٹکرے ہونے پر عورت چلائے گی ، روئے گی ، ہاتھ جوڑے گی ، منتیں ترلے اور واسطے بھی دے گی لیکن۔۔۔! تب مرد کا دل پتھر ہو چکا ہو گا ، اُسے اس بات سے کوئی فرق نہیں پڑے گا کہ عورت شرمندگی و خجالت کے پسینے میں شرابور ہے اور اُسی پسینے میں ڈوب رہی ہے ، وہ پتھر بنا ڈوبتا دیکھتا رہے گا۔
تصویر کا دوسرا
مرد لاپروا ہے، اس نے اپنی ایک دنیا بنا رکھی ہے جس میں وہ ہر وقت مگن رہتا ہے ، عورت کو توجہ نہیں دیتا ، اس کی ضروریات کا خیال نہیں رکھتا ، اس کی عزت نفس کو مجروح کرتا ہے اور بار بار کرتا ہے۔
چھوٹی چھوٹی بات پر اُسے زلیل وخوار کرتا ہے اور بے جا غصہ کرتا ہے ، بات بے بات سرزنش کرتا ہے ، غصہ زیادہ آ جائے تو ہاتھ بھی اٹھا لیتا ہے ، مار پیٹ کرتا ہے ، عورت کے ہر کام میں مین میخیں نکالتا ہے ، کبھی سالن میں نمک کم ہے ، تو کبھی روٹی جل گئی ہے ، تو کبھی چائے بدمزہ ہے ، تو کبھی یہ کیسے کپڑے دھوئے ہیں ویسے ہی میلے کے میلے ہیں ، تو کبھی کپڑے استری کرنے پر کہتا ہے سلوٹیں تو نکلی ہی نہیں ہے۔
ہیں ، اُسے اس کے کسی بھی کام پر سراہتا نہیں ، اور خود ادھر اُدھر منہ مارتا پھرتا ہے ، اِدھر اُدھر محبت کی پینگیں بڑھاتا ہے ، نظروں کے تیر اِدھر اُدھر پھینکتا ہے ، اِدھر اُدھر نظریں لڑاتا ہے ، غیر محرموں سے بات چیت کرتا ہے ، چھپ چھپ کر لمبے لمبے فون کرتا ہے۔
عورت اس کی ساری حرکتیں جانتے بوجھتے بھی صرف نظر کرتی ہے اور اِسے معاف کر دیتی ہے ، ہر دفعہ راز افشا ہونے پر یہ رو دھو کر ، مگرمچھ کے آنسو بہا کر معافی مانگتا ہے اور عورت اِسے معاف کر دیتی ہے ، عورت معاف تو کر دیتی ہے
لیکن اِس کے دل سے ایسے مرد کی محبت نکلنا شروع ہو جاتی ہے اور دوسری طرف ایسی عورت کی محبت مرد کے دل میں پیدا ہونا شروع ہو جاتی ہے ، ایک دن آتا ہےکہ عورت مرد کے پورے وجود پر ، پورے دل پر قابض ہو جاتی ہے اور ٹھیک دوسری طرف یہ وہ دن ہوتا ہے۔
جب عورت کی آنکھوں سے مرد کی محبت کا آخری آنسو بھی بہہ چکا ہوتا ہے ، آخری قطرہ بھی نچڑ چکا ہوتا ہے ، پھر وہ وقت آتا ہے کہ عورت کا وجود برف بن جاتا ہے اور مرد محبت کی گرمی پانے کے لیے اس کی منتیں کرتا ہے ، شرمندہ بھی ہوتا ہے ، اپنے گناہوں کا اعتراف بھی کرتا ہے ، غلطیوں پر ہاتھ جوڑ کر معافی بھی مانگتا ہے ، اور روتا بھی ہے۔۔۔!
لیکن تب عورت پر کوئی اثر نہیں ہوتا ، وہ مسلسل تکالیف برداشت کرتے کرتے خود کو مار چکی ہوتی ہے ، اور مرد جتنی بھی صفائیاں دے ، جتنی بھی ترلے کرے مرے ہوئے وجود میں زندگی پیدا نہیں ہوتی۔
(عزت دینا اور عزت لینا سیکھیں، شکریہ)