لفظ جسم سے مراد پورا انسانی ڈھانچہ ہے۔ لیکن چند محدود ذہینت کے مالک اس سے مراد پوشیدہ جنسی اعضاء ہی لیتے ہیں جس طرح مکھی انسان کے پیپ والے زخم پر ہی بیٹھتی ہے اسطرح جنسی بھوکوں کی سوچ بھی سیکس سے آگے نہیں جاتی۔ حالانکہ جسم سے مراد اپنے جسم پر اپنی مرضی کا لباس پہننا، اپنی مرضی سے جسمانی مشقت کرنا، اپنی مرضی سے اپنا جیون ساتھی منتخب کرنا بھی لیا جا سکتا ہے۔
جس معاشرے میں ،،میرا جسم میری مرضی،، قابل اعتراض ٹھہرایا جاتا ہے مگر ایک لڑکی کو ڈیرہ اسماعیل میں ننگا بازار میں گھمایا جائے۔ حکومت کے وزراء دارالامان کی بچیوں سے جنسی زیادتی کریں۔ جہاں مولوی اور پیر مسجد، زیارت اور مدارس میں بچوں اور بچیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنائے، جہاں منصف سر سے پاؤں تک چومے، جہاں جج جنسی حرکات کی ویڈیو کی بلیک میلنگ پر فیصلے صادر فرمائے تو ایسے واقعات کو دبا دیا جائے۔ اس سے زیادہ تو منافقانہ معاشرہ تو مبعوث نبوت سے پہلا والا عرب معاشرہ بھی نہیں تھا۔ مگر افسوس یہ لوگ خود کو اسلامی اقدار کا پاسبان کہتے ہیں