سال کے تین سو پینسٹھ دن دیکھ لیں ، ہر روز خواتین کے ساتھ زیادتی اور ہراسانی کے سینکڑوں کیسز رپورٹ ہوتے ہیں۔ زینب اور موٹروے زیادتی کیس کا ہی حوالہ دیتا ہوں کہ ان واقعات کو معاشرے کا ہر شخص جانتا ہے۔ اس کے علاؤہ دیگر ظلم و زیادتی کے ایسے ایسے کیسز رپورٹ ہوئے ہیں کہ ہمت نہیں پڑتی کہ انہیں کیسے بیان کیا جائے۔
خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے خواتین کے حقوق کی تنظیمیں خواتین پر ہونے والے مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلتی ہیں تو معاشرے میں ہر شخص مفتی بن جاتا ہے فتوے لگانے والوں کی لائن لگ جاتی ہے کہ یہ خواتین مزہب کو بدنام کرنے کے لیے نکلیں ہیں، یہ مغربی ایجنڈے کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ فحاشی کو پروموٹ کر رہی ہوتی ہیں وغیرہ وغیرہ اس طرح کے دیگر الزامات لگا کر ان خواتین کی کردار کشی کی جاتی ہے۔ الزام لگانے والوں سے ایک سادہ سا سوال ہے کہ وہ خواتین کے ساتھ ہونے والے مظالم پر بات کیوں نہیں کرتے؟ ان کے حق کے لیے آواز بلند کیوں نہیں کرتے ؟
اس بات پر بھی بڑا شور سنتے ہیں کہ جب عورت لباس اسلامی نہیں پہنیں گی تو مرد تو دیکھے گا، عورت کے ساتھ زیادتی تو ہو گی تو اس معاملے میں یہ عرض کرنا تھی اسلام یہ کہتا ہے کہ اگر آپ کی نظر کسی عورت پر پڑ بھی گئی ہے تو آپ کو بھی پردے کا حکم ہے کہ نظریں جھکا کر چلو ، لیکن اگر آپ بازار گلی محلے میں گھومنے پھرنے اسی نیت سے جاتے ہیں کہ لڑکیوں کو تاڑنا ہے، تو اس میں قصور زیادہ کس کا ہے ؟
خواتین کا عالمی دن معاشرے میں خواتین کے حقوق کو اجاگر کرنے کا دن ہے کہ معاشرے میں عورت کو بچے پیدا کرنے کی مشین نہ سمجھو ، عورت کو اس کے جو بھی حقوق ہیں وہ حقوق دو ، دوسروں کی ماؤں بہنوں کو گندی نگاہوں سے یہ سوچ کر مت دیکھو کہ میری ماں بہن بیٹی بھی ہے۔ ہم ایک دوسرے کی ماؤں بہنوں کی عزت کریں گے تو معاشرہ مزید مظبوط ہو گا۔
Load/Hide Comments