“مایوسی گناہ ہے” مگر “امید رکھنا کفر” ہو سکتا ہے اگر امید پوری کرنے کے لیے کوششوں کی ابتدا تب سے نہ کی جائے جونہی یقین کی جگہ امید نے لی تھی۔ یقین تب پیدا ہوا کرتا ہے جب کچھ ہو چکا یا کم از کم کچھ ہوتا ہوا دیکھ لو۔ وہ زمانے تو رہے نہیں جب پیغمبر آتے تھے اور وجود خدا سے لے کر حیات بعدالممات تک کا یقین راسخ کر دیا کرتے تھے۔ لوگ مکمل طور پر بہترین اگلے جہان کی “امید” میں اس جہان میں انسانوں کی زندگیاں سہل بنانے کے لیے اور انسانوں کے ہی پپدا کردہ مصائب جہالت اور غربت کا جڑ سے اکھاڑنے کی تگ و دو کرنے لگ جایا کرتے تھے۔ حال اچھا بنا لیتے تھے تو مستقبل کی امید پوری ہونے کا یقین بھی محکم ہو جاتا تھا۔
اس کے برعکس آج حال چونکہ اچھا نہیں ہے اس لیے مستقبل کی امید سے گریز بھی چلن ہو چکا ہے۔ حال برا ہونے کی وجوہات سبھی جانتے ہیں پھر بھی چند کو دہرائے دیتے ہیں جیسے سرمایہ داری نظام کے نہنگ جو منہ کھولے کسی اور کی بھوک کی پرواہ کیے بغیز سارے ہی وسائل اور سہولتوں کو نگلنے پر تلے ہوئے ہیں، جیسے محض اقتدار کے خواہاں بھیڑیے جو اپنی حاکمیت میں آئے لوگوں کو بھیڑیں خیال کرتے ہیں، جب جی چاہا جس کو جیسے اور جہاں چٹ کر لیا اور چٹ ہو جانے والے کا بھوت اس کے ارد گرد موجود سب کو مبہوت کیے رکھتا ہے، جیسے بدیش کی کاسہ لیس روباہیں جن کو ارد گرد کوئی چاہے جیسا ہے اور جو بھی ہے دکھائی نہیں دیتا لیکن اگر بدیشی دیوتا ان کی کھال بھی مانگیں تو اپنے دانتوں کی مدد سے اتار کر ان کی خواتین کے ابدان کی زینت بننے کی خاطر ان کی نذر کر دیں وغیرہ وغیرہ۔ قصہ مختصر نہنگوں، بھیڑیوں اور روباہوں کے علاوہ کسی اور کا حال اچھا نہیں ہے۔ باقی اصناف مخلوقات میں سے کچھ کے ساتھ ہی چمتکار ہوتا ہے اور وہ ان باسہولت اصناف کا روپ دھار لیتے ہیں۔
مماثلت علامتی نہیں ہے، حقیقی ہے۔ آپ بالائی طبقے کے لوگوں کو اگر بغور دیکھیں گے تو وہ آپ کو یا تو نہنگ دکھائی دیں گے یا بھیڑیے یا لومڑیاں۔ ان کے ارد گرد موجود آپ سب اپنے آپ کو دیکھیں تو آپ خرگوش، میمنے اور مچھلیاں لگیں گے۔ خرگوشوں، میمنوں اور مچھلیوں کا حال کبھی اچھا نہیں رہا اس لیے وہ مستقبل سے بھاگتے ہیں، قلانچیں بھرتے ہوئے بے خبر رہنے میں مصروف ہوتے ہیں یا نہنگوں کے منہ میں جانے کے لیے جھول کے جھول کی صورت چلے آتے ہیں۔
حال اچھا کرنے کے لیے حرگوشوں، میمنوں اور مچھلیوں کے قالبوں سے نکل کر انسان بننا ہوگا۔ وہ انسان ہوتے ہیں جنہیں ارد گرد کا ماحول بدلنے کی خواہش ہوتی ہے، جو صاف گھروں میں رہنا، معیاری غذا کھانا اور صاف پانی پینا چاہتے ہیں۔ جو چاہتے ہیں کہ شکاری جانوروں اور ان کے چالاک حمایتی جانوروں کو یا تو جنگلوں دریاؤں تک محدود کر دیں، یا انہیں ختم کر دیں یا جو بچ رہیں انہیں چڑیا گھروں میں نمائش کے لیے رکھ چھوڑیں۔ انسانوں کو تعلیم حاصل کرنی ہوتی، انسانوں کو مناسب روزگار درکار ہوتا ہے اور ساتھ ہی تفریح کے مواقع اور تفریح سے وابستہ مقامات اور اشیاء کی دستیابی اور ان تک دسترس بھی۔ انسانوں کو انسانوں کے ساتھ مل کر بھائی چارے، رواداری، برداشت، دوستی اور بقائے باہمی کے اصولوں کے تحت مشترکہ زندگی گذارنا آتا ہے۔ انسان اپنی بستیوں میں ضرررساں اور خطرناک جانوروں کو نہیں آنے دیتے۔ انسانوں کے معاشروں میں خونخوار درندوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہوتی۔ اگر بھولے سے کوئی درندہ بستی میں آ بھی جائے تو وہ ایک یا دو سے زیادہ کا شکار نہیں کر سکتا کیونکہ انسان موت اس کے مقدر میں لکھ دیتے ہیں یا اسے مرتے دم تک بند کر دیتے ہیں۔ انسانوں کے ہاں منصفین انسانوں کے لیے ہوتے ہیں اور انسان ہوتے ہیں وہ کسی جانور کو انسان بستیوں میں ڈٹے رہنے کا حق نہیں دیا کرتے۔
جب انسان انسان بن جائیں گے تو ان کا حال اچھا ہو جائے گا۔ جب حال اچھا ہوگا تو بہتر مستقبل کی امید بھی رکھی جا سکے گی۔ ابھی تک تو اس جنگل میں خرگوش اور میمنے ہی دکھائی دے رہے ہیں یا ساتھ کی جھیلوں، دریاؤں میں مچھلیاں جو ہمہ وقت شکاری جانوروں کی زد پر ہیں مگر بے پروا ہیں کیونکہ ان کی سوچیں یا تو ہیں نہیں یا اس قدر محدود ہیں کہ وہ اس سے آگے سوچنے سے عاری ہیں۔
خرگوش اور مچھلیاں تو ویسے ہی چپ بنا دیے گئے ہیں البتہ میمنے جب اکٹھے ممیانے لگتے ہیں تو کان پڑا شور سنائی نہیں دیتا۔ وہ چاہے کچھ بھی کیوں نہ کہنا چاہتے ہوں، انسانوں کو ماسوائے ممیاہٹ کی آواز کے کچھ اور سمجھ نہیں آتی۔
جی ہاں اس جنگل میں کچھ انسان بھی ہیں جن کی کہی کوئی نہیں سنتا۔ وہ اتنے کم ہیں کہ ان کی آپس میں بھی ملاقاتیں کم ہوتی ہیں۔ جنگل کو متمدن معاشرے کی شکل دینے کے لیے انہیں بہت زیادہ انسانوں کے ساتھ کی ضروت ہے مگر اکثریت کے سروں میں جادو کی کیلیں ٹھونک کر انہیں خرگوش بنا دیا گیا ہے یا میمنے اور مچھلیاں۔ انسانوں کو ابھی اس منترکی تلاش ہے جس کے استعمال سے سب کے سروں سے جادو کی کھیلیں نکل کر ریت بنیں پھر ریت بکھر جائے۔ انہیں ایک ایک کرکے کیلیں نکالنے کا منتر آتا ہے لیکن اس طرح بات نہیں بنتی۔
اقلیت کی شکل میں موجود یہ انسان خاصے پریشان ہیں کہ کہیں یہاں کا حال ان کی زندگیوں میں اچھا نہ ہو سکے تو کیا ہوگا۔ وہ سب بھی تو بالآخر فانی ہیں۔ ان کی اولاد ان کو مچانوں پہ بیٹھے احتیاط کی زندگی گذارتے اور خوف میں مبتلا رہتے ہوئے دیکھ کر اکتا چکی ہے۔ ان کی اولادوں میں سے کچھ نے تو خود جا کر بدیسی جادوگروں سے اپنے سروں میں جادو کی کیلیں گڑوا لی ہیں تاکہ وہ بھی میمنوں یا خرگوشوں کی مانند مست زندگی بسر کر سکیں۔
حال اگر اچھا نہ ہو تو مستقبل کیا سوچیں
Load/Hide Comments