پاکستان میں ایسے لوگ اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں جو ”مطالعہ پاکستان“ کو خاص اسلوب میں تحریر کیے جانے پر تحفظات کا اظہار کرتے رہتے ہیں۔ان لوگوں کا ماننا ہے کہ مطالعہ پاکستان کو مرتب کرنے کا خاص اسلوب تاریخ کو توڑ مروڑ کر پیش کرنے کے مترادف ہے۔ مطالعہ پاکستان کے خاص انداز میں رقم کیے جانے پر معترض لوگوں کے موقف کو تو رد نہیں کیا جاسکتا مگر ایسے کئی لوگوں کے اس رویے پر حیرت کا اظہار ضرور کیا جاسکتا ہے کہ جب انہیں خود کہیں تاریخی واقعات کا حوالہ دینے کی ضرورت پیش آتی ہے تو وہ تاریخ کی شکست وریخت کی واردات میں مطالعہ پاکستان لکھنے والوں کو بہت پیچھے چھوڑ جاتے ہیں۔ اس طرح کی تازہ ترین واردات کا ارتکاب ایک نامور صحافی نے گزشتہ دنوں ذوالفقار علی بھٹو شہید اور عمران خان کی شخصیتوں کا موازنہ کرتے ہوئے کیا۔ مذکورہ صحافی نے تاریخ کی جو توڑ پھوڑ کی زیر نظر کالم اس کی مرمت ہر گز نہیں ہے کیونکہ یہ کام خاص طور پر سوشل میڈیا پر کئی فاضل لوگ بطریق احسن کر چکے ہیں۔ جس کالم میں دد مختلف ادوار کی متضاد شخصیتوں میں زبردستی ایک جیسے اوصاف ظاہرکرنے کی کوشش کی گئی زیر نظر تحریر اس کا جواب نہیں بلکہ ایک سوال ہے۔اس سوال کی رو سے یہ پوچھنا ضروری ہے کہ بھٹواور عمران کو ہم آہنگ ظاہر کرنے کے لیے جو کام زبردستی کیا گیا وہی کام آسانی سے میاں نوازشریف اور عمران خان کی شخصیتوں کا موازنہ کر کے کیوں نہیں کیا جاسکتا۔ہونا تو یہ چاہیے کہ عصر حاضر کے دانشور خاص عرصہ کے دوران ایک ساتھ پرورش پانے والے عمران خان اور میاں نوازشریف کی شخصیتوں سے وابستہ مشترک اقدار کا جائزہ لیں مگر نہ جانے کیوں وہ ایسا کرتے ہوئے کچھ شرماسا جاتے ہیں۔
ایک ہی دور میں نشوونما پانے والی پاکستان کی دو اہم شخصیتوں کا موازنہ کرتے ہوئے یہ بتانا ضروری ہے کہ کرکٹ کے دلدادہ میاں نواز شریف کو تو شہرت سیاسی میدان میں داخل ہونے کے بعد نصیب ہوئی مگر عمران خان میدان کرکٹ کے نامور کھلاڑی ہونے کی وجہ سے بہت پہلے اندرون اور بیرون ملک مشہور ہو چکے تھے۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے سے قبل عمران خان کو زیادہ سنجیدہ انسان کی بجائے غصے سے بھر پورفاسٹ باؤلر اور پلے بوائے کے طور پر جانا جاتا تھا۔ نواز شریف کی سیاسی شناخت اور کرکٹ ٹیم کے سخت گیر کپتان کے طور پر عمران خان کی نئی پہچان کا سامان تقریباً ایک ساتھ جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں تیار کیا گیا۔ جاوید میانداد کو سازش کے تحت کپتانی سے ہٹائے جانے اور عمران خان کے کپتان بننے کے بارے میں کئی لوگوں کی یہ رائے ہے کہ اس کام میں ضیاء الحق کے معتمد ساتھی جنرل (ر) مجیب الرحمٰن نے خاص کردار ادا کیاتھا۔ پاکستان کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے کے بعد عمران خان دنیا کے سامنے اپنے سابقہ تشخص سے مختلف روپ میں نظر آئے۔ عمران خان نے کپتان بننے کے بعد لگاتار جن تین کرکٹ ورلڈ کپ ٹورنامنٹوں میں پاکستانی ٹیم کی قیادت کی ان میں سے دو میں اوسط درجے کا کھیل پیش کرنے کے بعد 1992 میں پاکستانی ٹیم ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہوئی۔ ورلڈ کپ جیتنے میں کامیاب ہونے کے بعد عمران خان کی کرکٹ تو ختم ہوگئی لیکن آنے والے وقت میں پہلے وہ ایک فلاحی شخصیت اور پھر سیاسی رہنما کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ عمران خان کی نئی حیثیت میں حاصل ہونے والی شہرت کے متعلق کہا جاتا ہے کہ جس طرح ان کے کرکٹ ٹیم کا کپتان بننے میں جنرل (ر) مجیب الرحمٰن نے کردار ادا کیا اسی طرح جنرل (ر) حمید گل کی کوششوں سے وہ سیاسی میدان میں داخل ہوئے۔
یہ بات کوئی راز نہیں ہے کہ نواز شریف کی سیاست میں آمد جنرل (ر) ضیا اور جنرل (ر) جیلانی کی خاص عنایتوں کی وجہ سے ممکن ہوئی تھی۔ میاں نواز شریف کی سیاسی زندگی کے آغاز کے بعد ان کا اسٹیبلشمنٹ سے قربتوں کا گراف مسلسل ایک دہائی تک بلندیوں کی طرف گامزن رہا۔ اس کے بعد جب گراف کی لائن نیچے کی طرف آئی تو کبھی بھی خط مستقیم نہ بن سکی بلکہ نشیب و فراز کا سفر طے کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہی۔ میاں نواز شریف نے 1993 کے بعد صرف اس حد تک اسٹیبلشمنٹ کی مخالفت کی جس حد تک وہ ان کے سیاسی مفادات کی راہ میں رکارٹ بنی۔ اس اتار چڑھاؤ کے دور میں کبھی تو میاں نواز شریف کے بھائی شہباز شریف رات کے اندھیرون میں آرمی چیف سے ملاقاتیں کرتے نظر آئے اور کبھی کبھی وہ خودیہ کہتے سنائی دیئے کہ کوئی ادارہ مقدس گائے نہیں ہے۔ اس طرح کے اتار چڑھاؤ کے باوجو اس بات سے انکار ممکن نہیں عمران خان کی طرح میاں نواز شریف نے جو بھی سیاسی مقام حاصل کیا اس کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد بنیادی کردار ادا کرتی رہی۔
میاں نواز شریف اور عمران کی مخاصمت کی حقیقت یہ ہے کہ جہاں میاں صاحب پنجاب کو اپنے لیے سیاسی قلعہ سمجھتے ہیں وہاں عمران خان نے بھی پاکستان کے کسی دیگرعلاقے کی نسبت پنجاب کو ہی اپنا مضبوط سیاسی مرکزبنایا۔ سیاسی مفادات کے تضاد کے باوجو د ان دونوں کی فکر ی ہم آہنگی سے انکار ممکن نہیں ہے۔ ان دونوں کی فکری ہم آہنگی کی ایک مثال یہ بھی ہے کہ 1996 ء میں شوکت خانم ہسپتال میں بم دھماکہ کے بعد جب اس وقت کی وزیر اعظم محترمہ بے نظیر بھٹوشہید نے ہسپتال کا دورہ کیا تو عمران خان نے وہاں موجود رہنامناسب نہ سمجھا مگر میاں نواز شریف کے وہاں آنے پر عمران خان نے بنفس نفیس انہیں خوش آمدید کہا۔ جب صحافیوں نے عمران خان سے دو اہم رہنما ؤں کے ساتھ روا رکھے جانے والے انکے مختلف رویے کے متعلق پوچھا توان کا جواب تھاکہ میاں نوازشریف کے ساتھ ان کی زیادہ فکری ہم آہنگی ہے۔
عمران خان اور میاں نوازشریف کی فکری ہم آہنگی کے کئی ناقابل تردید شواہد کے باوجود بعض لوگوں کو میاں صاحب کسی بہت بڑے انقلاب کے داعی نظر آتے ہیں۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ میاں نوازشریف کبھی کبھی کچھ لوگوں کا نام لے کر ان کے غیر سیاسی کردار اور مبینہ کرپشن کو ہدف تنقید بناتے ہیں۔ میاں صاحب کے اس عمل سے توقعات وابستہ کرنے والے کچھ لوگ یہ سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ صرف زبانی کلامی برسرپیکار ہو کر کوئی فرد تن تنہا کبھی کسی انقلاب راہ ہموار نہیں کر سکتا۔جہاں تک زبانی کلامی مخالفت کی بات ہے تو یوٹیوب پر ایسے کئی کلپ دیکھنے کو مل جاتے ہیں جن میں عمران خان اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتے ہوئے میاں نوازشریف کوبھی پیچھے چھوڑتے نظر آتے ہیں۔ قصہ مختصر یہ کہ اس معاملے میں میاں نوازشریف اور عمران خان کے عمل میں یہ مماثلت ہے کہ دونوں طویل خاموشیوں کے بعد کبھی کبھی خاص وجوہات کی بنا پر اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بول تو لیتے ہیں مگر ان دونوں نے اس کام کے لیے کبھی بھی اپنی سیاسی جماعتوں کو تیار کرنے کی کوشش نہیں کی۔
کالم کے اختتام پر بھٹو اور عمران کا موازنہ کرنے والوں سے گزارش ہے کہ وہ ڈیورنڈلائن سے ملحق پاکستان اور افغانستان کا چاہے جیسے مرضی موازنہ کر لیں مگر جرمنی اور جاپان کی سرحدیں ملانے کی کوشش نہ ہی کریں تو بہتر ہے۔
Load/Hide Comments