از فساد او اگر خواہی اماں
اشترانس راز حوض خود براں
جب کسی ملک میں شعبہ اقتصادیات ایسے ہاتھوں میں آ جائے جو ان ضابطوں اور قاعدوں سے ناواقف ہوں جن سے اس شعبہ میں ترقی ممکن ہے تو پھر جہاں ملک میں بڑی تیزی کے ساتھ آبادی میں اضافہ ہو رہا ہوتا ہے وہیں پر اس سے دو گنا تیزی کے ساتھ روزگار کے مسائل میں بھی اضافہ ہو رہا ہوتا ہے ، ایک عام آدمی کو دو وقت کی روٹی کے لیے کڑی محنت کرنی پڑتی ہے ، روزگار کا حصول اس ملک میں ایک سنگین مسئلہ بن جاتا ہے ، اور صورت حال کچھ یوں ہو جاتی ہے کہ ایک طرف بے چاری عوام نان شبینہ تک کو محتاج ہو جاتی ہے اور دوسری طرف سرکاری ملازمین کرپشن کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں ، وہ اپنے فرائض منصبی کو پس پشت ڈال کر اپنے ذاتی مفادات کو ترجیح دینے لگتے ہیں ، کوئی بھی چیز آسانی سے دستیاب نہیں ہوتی عام ضرورت کی اشیاء بھی مارکیٹ سے غائب ہو جاتی ہیں اور اگر دستیاب بھی ہوں تو ان کے دام اتنے بڑھا دیے جاتے ہیں کہ عام آدمی انہیں دیکھ تو سکتا ہے مگر قوت خرید نہیں رکھتا۔
یقیں مانیے۔۔! کہ جب کسی ملک میں صورت حال یہ رخ اختیار کر لے تو جرائم پیشہ لوگوں کے حوصلے بڑھ جاتے ہیں ، ملک کے اندر نئی نئی جرائم پیشہ تنظیمیں جنم لینے لگتی ہیں اور پرانی تنظیمیں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ان نئی تنظیموں کا راستہ روکنے کی کوشش کرنے لگتی ہیں ، ایک دوسرے کی ذات پر کیچڑ اچھالنا ، ایک دوسرے کے علاقے میں مداخلتوں پر خونی تصادم روز مرہ کا معمول بن جاتا ہے ، ٹارگٹ کلنگ ، خودکش دھماکے ، نہ مرنے والوں کو معلوم کہ انہیں کیوں مارا گیا اور نہ مارنے والوں کو معلوم کہ کس جرم کی پاداش میں انہوں نے ان معصوموں کو خاک و خون میں نہلا دیا ہے ، بد امنی پھیلتی ہے ، جوئے شراب طوائفوں اور منشیات کے گھناؤنے دھندے چمک اٹھتے ہیں اور موت کے سوداگر ہر طرف کھلے بندوں موت بانٹتے نظر آتے ہیں کوئی ان کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں ہوتا۔
اور پھر وہ وقت آنے میں بھی دیر نہیں لگتی کہ جب ملک خانہ جنگی کا شکار ہو جاتا ہے ، لوگ محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں اپنے ان علاقوں کو چھوڑنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جہاں وہ برسوں سے مقیم ہوتے ہیں ، پھر ان کے قافلوں پر حملے ہوتے ہیں ، ان کے کیمپوں پر بمباری ہوتی ہے ، ان کے لاشے گرائے جاتے ہیں ، انسانیت کی اس قدر تذلیل کی جاتی ہے کہ دنیا کے جن خطوں میں قتل ؤ غارت گری کے بازار گرم ہیں روز میڈیا پہ ان مظلوموں کے احوال دیکھ کر روح کانپ اٹھتی ہے ، امن و آشتی کے دعوے دار و نام نہاد ٹھیکے دار بس زبانی کلامی شور مچا کر نچلے بیٹھ جاتے ہیں ، ظالم ظلم کرتے رہتے ہیں ، مظلوم ظلم سہتے رہتے ہیں ، مجھے اپنے ملک سے محبت ہے میں اپنے ملک کی محافظ فوج کا قدراں ہوں میں اپنے ملک کے صاحب اقتدار حکمرانوں ، فرمانرواؤں کے نام یہ پیغام دینا چاہوں گا۔۔۔! ایسی صورت حال پیدا ہونے سے بچانا تمہاری ذمہ داری ہی نہیں بلکہ تم پر فرض عین ہے ، عوام دوست بنو ، عوام دشمن نہیں ، اپنے اختیارات اور وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ملک سے بدامنی کا خاتمہ کرو۔