اس مالی سال کے اختتام پر اسٹیٹ بینک ،ورلڈ بینک ،آئی ایم ایف ، حکومتی عہدیداروں نے معیشت کی فعالیت اور جی ڈی پی کے حوالہ سے مختلف پیش گوئی کی ہے ۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کے مطابق جی ڈی پی 1.3% سے 1.5% رہنے کا امکان ہے جبکہ اسٹیٹ بینک نے 3% حکومت نے 3.94% گروتھ ہونے کا دعوی کیا ہے ۔ فی کس آمدنی بٹرھنے کی بات کی جارہے ہی اسکے اعداد شمار سے قطع نظر دیکھیں تو تاجروں اور امیر طبقات کی دولت میں اضافہ ہوا ہے ۔امیر اور غریب کے دوران خلیج وسیع ہوئی ہے ، فوڈ باسکٹ 100% بڑھ گئی ہے جسکو آٹے، گھیُ، مرغی ، گوشت پیٹرولیم ، بجلی ، گیس کے بلوں چینی اور دیگر اشیائے ضرویہُ کی قیمتوں کے تناظر میں دیکھا جاسکتاہے ۔
جی ڈی پی اور سٹاک مارکیٹ کے ابھار سے ملک کے غریب عوام کا کچھ لینا دینا نہیں ہے ۔روزگار کے مواقع نہیں بڑھ رہے ہیں کیونکہ نئی صنعتکاری نہیں ہورہی ہے ۔ تعمیراتی شعبے کا ابھار حکومتی چھوٹ لی وجہ سے ہے -مہنگائی کی وجہ سے لوگوں کی قو ت خرید کم جبکہ تنخواؤُ میں کوئی اضافہ نہیں ہواہے ۔ملک میں سرمایہ کی تخلیق کا پیداواری عمل نہ شروع ہونے ، رسد اور طلب کے جھوٹے مفروضوں ، ناجائزمنافع خوری اور ذخیرہ خوری کی وجہ مقامی پیدا ہونے والی اجناس کے نرخ آسمانی باتیں کررہے ہیں ۔ پاکستان اشیائے خوراک کی قیمتوں میں علاقے کے دیگر ممالک سے آگے ہیں ۔دنیا آزاد منڈی کی معیشت کے میکانزم کے تحت کام کررہی ہے جہاں پر منافع کمانے کے اصول اور حدود ہیں مگر یہاں تو باوا آدمُ ہی نرالاہے۔
ہر شعبے میں کاٹیلز اور مافیاز موجود ہیں جو جنرل ضیاۂ کے عہد حکومت سے اقتدار کا اہم جزو بن گئے ہیں اور وہی جمہوری اورآمر حکمرانوں کو اقتدار میں دوام دیتے ہیں۔عمران کو کرپشن صرف اپوزیشن میں نظر آتی ہے ملک کے تاجر محصولات کا 50%، صنعتکار 15% افسر شاہی 20% ملی بھگت سے ہڑپ کر جاتے ہیں یہی وجہ ہے ٹیکس نیٹ میں اضافہ نہیں ہورہا ہے ۔مڈل میں آڑھتی اورُ بروکرز کسانوں کو کھاد بیج اور ادویات کے ادھار کے بدلے انکی اجناس اونے پونے داموں خرید لیتا ہے ۔ حکومتوں کی وسیع القلبی کی وجہ شوگر ملیں لگانے سے کپاس کا زیر کاشت رقبہ کمُ ہواہے ۔ آج ہم کپاس کے ساتھ گندم درآمد کرنےپر مجبور ہیں ۔دالوں کی پیداوار عرصہ درازسے کم ہو چکی ہے ان کو ہم باہر سے منگوارہے ہیں خوردنی تیل کی فصل نہیں کاشت کی جاتی ہےُ یوں اربوں ڈالرز زرعی اجناس کی درآمدات پرضائع کئے جارہے ہیُں .
ہماری مار کیٹیں سمگل شدہ مصنوعات سے بھر ی پڑی ہیں جن پر کوئی ٹیکس نہیں ادا کیا جاتا ہے ۔ملکی سگریٹ کمپنیو ں نے علحدہ لوٹ مچا رکھیُ ہے ۔حکومتیں مراعات یافتہ طبقات کو ہمیشہ چھوٹ دیتی ہیں اور ہربجٹ کو بزنس فرینڈلی قرار دیتی ہیں1977 کے بعد کوئی عوام دوست بجٹ نہیں آیا ہے نہ ہی غریب طبقات کو کوئی ریلیف ملا ہے ۔ریاست کے اخراجات آمدن سے کہیں زیادہ ہیں ۔ قرضہ جات جی ڈی پی کا 87% ہو چکے ہیں ۔بیروُن ملک سےآنے والی ترسیلات کی وجہ سے زرمبادلہ کے ذخائر کا بھرم قائم ہے۔حکومت کو 2400 ارب روپے کے ریکارڈ گردشی قرضوں کی ادائیگی اور خسارے میں چلنے والے حکومتی اداروں اسٹیل مل ،ریلوے ،پی آئی اے اور واپڈا کی نجکاری کی بجائے دو برسوں میں 1000ارب روپے جھونک دئیے ہیں ۔حکومت جس ادارے کی بہتری کیلئے قدم اٹھاتی ہے اسکا الٹا اثر ہوتاہے مافیا مافیا کا شور مچا ہواہے ۔مہنگائی اور بے روز گاری میں اضافہ ہورہاہے اندرونی اور بیرونی قرضوں سے کام چلایا جارہا ہے.
ٹی وی ٹاکس میں سرمایہ دارانہ نظام کے حامی اور عالمی مالیاتی اداروں کے سابقہ ملازمین کو معیشت کےبارے میں گفتگو کرنے کیلئے بلایا جاتا ہے اسی طر ح حکومتی اکابرین معیشت کے چل پڑنے کے بتاتے ہیں ۔آمروں کے عرصے میں ترقی وجہ عالمی امدادیں افغان جہاد کے ڈالرز ریال اور قرضوں کی اقساط کو مؤخر کرناتھا ۔اب گرانٹوں کی بجائے سود پر قرضے ملتے ہیں ۔نواز شریف اور عمران خان کا معاشی رول ماڈل ایک پرانی اشرافیہ دوسرا نئی کی نمائندگی کرتاہے۔انکا عام آدمی کے مسائل سے کیاتعلق ہے دونوں انتہائی دائیں بازو کے نمائندے ہیں اور کے اردگرد مقتدرہ مافیازجمع ہیں جو صرف اپنے سرمائے اور کاروبار بڑہانے سے غرض رکھتی ہےُ ۔حکومت نے ٹیکسوں کے ذریعہ عوا م کا بھر کس نکال دیا ہے۔بجٹ میں ابھی مزید ٹیکس عائد اور بجلی مہنگی ہوگی .
عمران خان مختلف طبقات میں سیکورٹی کے قرضہ جات بانٹ کر لوگوں کو روزگار دلانا چاہتے ہیں ماضی میں نواز شریف کی پیلی ٹیکسی اور کاروبار سکیموں کیا حشر اور بینکوں کاکتنا نقصان ہوا یہ ان کہی کہانی ہے ۔ نوجونواں میں قرضے بانٹنے کی بجائے تعلیم کے ذریعہ انسانی سر مایہ تشکیل دینا چاہئے۔
پاکستان کو معیشت سماجیت اور افغان مسئلہ کے حوالے سے گھمبیر چیلنجز درپیش ہیں ہم قرضوں پر پلنے والی طفیلی ریا ست بن چکے ہیں۔صوبوں میں قومی مالیاتی ایوارڈ کی تقسیم متنازعہ ہوچکی ہے۔صوبہ سندھ پانی کی تقسیم میں نا انصافی پر احتجاج کر رہا ہے ۔ریلوے اوردیگر ادارھ بد حالی سے دوچار ہیں ۔ خوف کی وجہ سے افسر کام نہیں کر رہے ہیں ۔ گذشتہ سا ل کے ترقیاتی،تعلیم اور صحت کے بجٹ پورے استعمال نہیں ہوئے ہیں۔2018 اب صرف ماضی ہے سابقہ حکمرانون کوکوسنے سے معاملات نہیں سنوارے جا سکتے ہیں ۔سیاست میں اختلاف غداری نہیں ہوتاہے-سیاست نام ہی مفادات اورتحفظات و مکالمے کاہے۔
دوسری جہت معاشی بحالی اور ترقی ہے۔بات اعداوشمار کی نہیں دیکھنایہ ہے ما حاصل کیا ہے۔سرمایہ کاری،پیداواراور برآمدات کے شاریے کیسے استوار کرنے ہیں ۔سیٹھ کی تجوربھرُنا معاشی انصاف نہیں ہے۔سماجی اور معاشی انصاف غریب طبقات کے اوقات کار کو اصلاحات کے ذریعہ بہتر بنانا ہے جس کا متبادل لنگرخانے اور پناہ گاہیں نہیں ہوسکتی ہیں ۔