ریاست مدینہ کے اصل نیک حکمران : ضیاءالرحمن لاوہ

حضرت عمر رضی اللہ عنہ ایک رات شہر کی حفاظت کے لیے چکر لگانے کے لیے نکلے ۔ایک میدان سے گزر ہوا تو وہاں بالوں کا بنا ہوا خیمہ دیکھا ۔جب اس خیمے کے قریب گئے تو دیکھا کہ ایک مسافر آدمی خیمہ کے دروازے پر بیٹھا ہے اور اندر سے کچھ کراہنے کی آواز آ رہی ہے ۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا کہ تم کون ہو اور یہ آواز کیسی آ رہی ہے ؟
اس نے بتایا کہ میں ایک مسافر آدمی ہوں پردیسی ہو ں۔ یہاں سے گزر ہوا تو رات گزارنے کے لئے پڑاو کیا ۔آپ نے اندر سے کراہنے کی آواز آنےکا سبب پوچھا ۔اس نے بڑے اصرار کے بعد بتایا کہ :امرآة مخضت تلد ۔میری عورت کے ہاں ولادت کا وقت قریب اور درد زہ ہورہا ہے۔
آپ نے پوچھا فھل عندھا احد؛ ؟ کیا اس کے پاس کوئی دوسری عورت وغیرہ ہے؟اس نے کہا ‘نہیں’ ۔آپ وہاں سے جلدی میں اٹھے اور گھر آکر بیوی حضرت ام کلثوم بنت علی رضی اللہ عنہ کو جگایا اور ان سے پوچھا ۔ھل لک فی اجر ساقہ اللہ الیک؛کہ ایک بڑے ثواب کی چیز تیرے مقدر میں آگئی ہے تیرا کیا خیال ہے؟
بیوی نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے ؟ آپ نے بتایا کہ اس طرح ایک مسافرہ عورت کو درد زہ ہو رہا ہے اور وہ بیچاری تنہا ہے شہر کے باہر ایک خیمے میں پڑی ہے ۔. . . . حضرت ام کلثوم بھی آخر حضرت سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی تھیں اور اس کے لیے تیار ہوگئیں ۔حضرت عمر نے فرمایا کہ ولادت کے وقت جن چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ساتھ لے لو ۔ چناچہ انہوں نے گھی شکر ‘ دانے’کھجور ہانڈی وغیرہ لے لی۔اور حضرت عمر کے ساتھ چل پڑیں۔ وہاں پہنچ کر حضرت ام کلثوم تو خیمہ کے اندر چلی گئیں اور آپ نے باہر چولھا بنا کر آگ جلائی۔اور ہانڈی میں دانے ابالے ، گھی شکر ڈالی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ آگ کو جلانے کے لئے بار بار پھونک مار رہے تھے اور دھواں آپ کی داڑھی مبارک سے نکل رہا تھا وہ مسافر بیٹھا یہ سارا منظر دیکھ رہا تھا وہ حیران تھا کہ رات کے اندھیرے میں یہ کون شخص فرشتہ رحمت بن کر آ گیا ہے . وہ کسی کام کو ہاتھ لگاتا تو حضرت عمر فرماتے آپ مسافر ہیں آرام کریں یہ میرا کام ہے ۔ اس نے نام پوچھا تو فرمایا کہ تجھے کام سے غرض ہے نہ کے نام سے ۔اور جس کی رضا کے لئے یہ سب کچھ ہو رہا ہے وہ ہمارا نام جانتا ہے ۔
تھوڑی دیر کے بعد اندر سے حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا نے آواز دے کر عرض کیا ؛بشر صاحبک بغلام یا امیرالمومنین۔ کہ اے امیر المومنین اپنے ساتھی کو لڑکا پیدا ہونے کی بشارت دے دیجئے ۔امیرالمومنین کا لفظ جب اس مسافر کے کان میں پڑا تو وہ گھبرا گیا ۔کہ کیا یہی حضرت عمر رات کی اس تنہائی میں میرے پاس بلا خوف و خطر بیٹھے ہیں جن کا نام سن کر قیصر و کسریٰ ڈرتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ گھبرانے کی کوئی بات نہیں یہ میرا فریضہ تھا جو میں نے ادا کیا ۔کیوں کہ میرے محبوب نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ۔ تم میں سے ہر بندہ جوابدہ ہے اور اس سے اسکی رعیت کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ ۔ اے عرب بھائی جس آدمی کو مسلمانوں کے امور سونپے جائیں اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ چھوٹے بڑے معاملات سے باخبر رہے۔کیونکہ وہ سب امور کا ذمہ دار ہے اور جب وہ لوگوں کے حالات سے غافل ہو گیا تو دنیا و آخرت میں اس کے لئے نقصان ہی نقصان ہے ۔خلفائے راشدین کی زندگی میں اس قسم کے سینکڑوں واقعات پائے جاتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہٗ نے وہ ہانڈی خیمہ کے دروازے کے پاس رکھ دی اور فرمایا کہ یہ اپنی بیوی کو بھی کھلاؤ اور خود بھی کھاؤ ۔کل میرے پاس آ جانا بچے کا وظیفہ جاری کیا جائے گا ۔ اس کے بعد اپنی بیوی کو ساتھ لے کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ واپس تشریف لے آئے ۔

ریاست مدینہ کے اصل نیک حکمران : ضیاءالرحمن لاوہ” ایک تبصرہ

Leave a Reply