حکیم ادھر اللہ ادھر تحریر : مسعود احمد

حکیم ادھر اللہ ادھر تحریر : مسعود احمد

اللہ جانے اس میں کونسی حکمت ہے حکیموں کی کثیر تعداد حکمت کے ساتھ شاعری کا شوق بھی فرماتی ہے 80 کی دھائی میں اوکاڑہ میں ایک حکیم ہوا کرتے تھے نام تو شاید انکا کا کچھ اور ہی تھا مگر ادبی حلقوں۔میں وہ ادھر اللہ ادھر کے نام سے جانے جاتے ان دنوں حلقہ بھی بس اتنا ہی بڑا تھا کہ ایک نوجوان کو بزرگوں نے ایک دوشیزہ سے شادی سے منع کرتے ہوئے کہا کہ لڑکی طبعیت کی ذرا خوش مزاج ہے پنڈ۔

میں ہر ایک سے اسکا ہاسا مخول ہے باز آ جاؤ تو لڑکے نے کہا خیر ہے پنڈ ہے ہی کتنا بڑا یہی حال ہمارے حلقہ کا تھا خیر حکیم صاحب یہیں شہر میں مطلب فرماتے جڑی بو ٹیوں اور کشتوں کے ساتھ ساتھ شاعری بھی وھی کھرل فرماتے مریض کی تو خیر وھاں کم ہی زیارت ہوتی مگر شعرا کا تانتا باقاعدگی سے بندھا رھتا اگر کوی مریض آ یا بھی دوبارہ ان کے ہاں کیا کہیں بھی نہیں دیکھا گیا کاروبار اور شاعری میں ایک ہی جیسی برکت تھی بقول انکے انہوں نے خاصی دیر خلیج کے شاھی خاندانوں کے ہاں حکمت کی خاصی کمای کی اور حکیم صاحب کی وجہ سے عربوں کی مردانگی قائم دائم ہے جس کو عرب اسرائیل جنگوں سے بھی ذرا ضعف نہیں پہنچا مگر ہمارا آج کا یہ موضوع ہر گز نہیں نہ ان کی حکمت پر بحث مقصود ہے وہ شاعر۔ بھی تھے اور بزعم خود بڑے شاعر کتاب تو شاید انکی بازار میں کوی نہیں تھی مگر انہوں نے اپنے بارے میں مختلف شعرا اور معززین کی آرا پر مبنی ایک بروشر چھپوا لیا جو ہر ملنے والے کو داد طلب نظروں سے پیش کرتے یہ سعادت ہمارے حصے میں بھی آ ی ایک راے عصر حاضر کے سب سے بڑے شاعر ہمارے پیرو مرشد جناب ظفر اقبال کی تھی ان دنوں وہ اوکاڑہ کچہری میں پریکٹس کرتے تھے راے کیا تھی حکیم صاحب شریف آ دمی ہیں ہم بروشر بغل میں دبا کر ظفر صاحب کے چیمبر پہنچے حکیم صاحب کے حوالے سے بات ہوی تو فرمانے لگے ہاں حکیم صاحب آ ے تھے اور میں نے لکھ دیا کہ حکیم صاحب شریف آدمی ہیں حالانکہ یہ بھی سرا سر غلط ہے ان دنوں ہمارا تبادلہ حبیب بینک منڈی عثمان والا ضلع قصور ہوگیا جوانی کے دن تھے کبھی مو ٹر سائیکل اور کبھی بسوں پر خجل خوار ہوتے آ گے تین چار میل تانگے کا سفر مگر ان دنوں ہماری پوری معاشرت صبر شکر کی دولت سے۔مالا مال ہوا کرتی تھی سفر کو صعوبت نہیں وسیلہ ظفر سمجھا جاتا تھا

یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ اوکاڑہ آییں اور اسلم کولسری صاحب کے حضور حاضری نہ ہو ان سے خبر ملی کہ اگلے اتوار انکے ساتھ پاک پتن میں ایک شام کا۔اہتمام ہے میزبان اسلم ثاقب تھے جو ہمارے سگے ماموں اور اسلم کولسری صاحب کے بڑے مداح تھے حاضری ناگزیر تھی کرنا خدا کا ھفتہ کو برانچ میں آ ڈیٹرز آ گے اب آ ڈٹ کے دورانیے کا کشٹ کوی بینکر ہی جان سکتا ہے وقت کا کوی پتہ نہیں چلتا خیر باتوں باتوں میں آڈٹ کے ٹیم لیڈر نے ہم سے ہماری سکونت کے بارے میں پوچھا تو ہم نے بتا دی موصوف فرمانے لگے کہ انکے ماموں بھی اوکاڑہ کے ہیں کریدنے پر پتہ چلا کہ حکیم صاحب انکے ماموں ہیں اس حوالے سے تھوڑی شناسائی کے بعد ہم نے شام ذرا جلد اجازت طلب کی تو انہوں نے ایک شرط پر دے دی کہ اگلے دن ہم بطور نامہ بر حکیم صاحب سے انکے سر بمہر رقعے کا جواب لائیں گے ہمارے پاس آ ی ایم ایف کی طرح یہ شرط ماننے کے علاوہ کو چارہ نہ تھا منڈی عثمان والا سے بذریعہ ریل پاکپتن اسلم کولسری صاحب کے ساتھ شام پھر ایک دونشستیں شام ہوگی بس پکڑ کر بھاگم بھاگ اوکاڑہ پھر حکیم صاحب کے۔

در دولت پر دستک دی حکیم صاحب خود ہی باہر آ ے بیٹھک کا دروازہ کھولا حال احوال کے بعد ہماری شاعری کی تعریف کی چاے پر زور دیا اب ہم جو پہلے ہی ضرورت سے زیادہ پھیلے تھے مزید پھیل گے اسی اثناءمیں حکیم صاحب نے ایک بھاری بھر کم البم ہمارے سامنے رکھ دی جس میں حکیم صاحب خلیجی ریاستوں۔میں عربیوں کا علاج فرما رہے تھے کہیں ادویات کوٹ رھے تھے ہم نے رقعہ کا جواب مانگا تو فرمانے لگے مل جائے گا ایسی بھی جلدی کیا ہے البم کے بعد ایک ضخیم بوسیدہ ڈائری جس میں بقول حکیم صاحب انکے دادا جی نے طب نظم کی ہم نے کہا بے شک ملی اور رفاہی شاعر ی میں آ پکے دادا حضرت اقبال کے ہم پلہ کیا کہیں بڑے تھے ان لبوں کیا باچھوں تک تبسم پھیل گیا ہم پھر رقعے کا جواب طلب کیا فرمانے لگے مل جائے گا پھر انہوں نے اپنی جو شاعری شروع کی نہ پائے ماندن نہ جاے رفتن جب اس تشدد سے ہماری نبضیں مدھم پڑنے لگیں حکیم صاحب نے جواب لکھا اور ہم گھر آ کر گھوڑے کیا اونٹ گدھے سب بیچ کر سوگئے صبح دس بجے آ نکھ کھلی تو بسیں پکڑ پکڑا کر برانچ پہنچے بارہ بج چکے تھے گھڑی کی سوئیوں پر بھی اور ہمارے۔مینجر صاحب کے بھی انہوں نے چڑھائی کردی ہماری غیر ذمہ درانہ طبعیت کو کوسا ہمیں حضرت سعدی کی وہ حکایت یاد آ گی کہ حد سے بڑھا خوف بلی کو شیر کر دیتا ہے ہم نے پچھلی رات کی ساری ھڈ بیتی اور جگ بیتی بیان کردی آ ڈیٹر صاحب بھی حکیم صاحب کے مزاج آ شنا تھے بات آ ی گئی ہوگئی تو جناب یہ تھے ہمارے حکیم ادھر اللہ ادھر

Leave a Reply