چند روز قبل کچھ ضروری کام کے سلسلے میں ایک سرکاری دفتر جانا ہوا۔ اس دفتر سے پہلے بھی تعلق تھا مگر اس بار کام ذرا ذاتی نوعیت کا تھا تو اندازہ ہوگیا کہ صاحب یہ کلرک عجیب مخلوق ہے جب تک دھونس دھمکی یا کسی سے فون نہ کرواؤ تو گھانس نہیں ڈالتے۔ خیر سے کام بھی عجیب تھا مگر تھوڑا بہت ہوا اور پھر کہیں فائل رک گئی۔ ایک جگہ فائل پر نوٹ لگا دیا گیا کہ ” ڈیتھ سرٹیفیکیٹ ” کے لیے گورگن سے پرچی بنوا کر لائی جائے۔ جس دوست کا یہ کام تھا میں نے اسے فون کھڑکایا۔ کچھ دیر بعد میں اس کے ساتھ ایک پرانے سے مگر شہر کے درمیان واقع قبرستان پہنچ گیا۔ گرمی کی شدت تھی یا میرا ہی دن برا تھا۔ گورکن کی تلاش میں آتے جاتے لوگوں سے پوچھتے پوچھتے گھومتے گھماتے قبرستان کے درمیان واقع ایک چھوٹی سی چار دیواری کے سامنے پہنچ گئے۔ چار دیواری کیا تھی جیسے کسی صاحب کا مزار ہو، اس مزار کو ذرا بڑا کر کے اس کے اندر ایک دالان سا بنا دیا گیا تھا تا کہ چار افراد آرام سے پنکھے کے نیچے فرش پر سو لیں۔
وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک ضعیف العمر چشمہ لگائے نحیف سے صاحب ملے جنہیں اس قبرستان کا چیف گورگن کہا جا سکتا تھا ساتھ میں دو لڑکے تھے۔ سلام دعا کے بعد معلوم پڑا کہ گورگن صاحب ہماری زبان سے واقفیت رکھتے ہیں۔ گورکن کے لیے یہ گویا خوشی کی خبر تھی۔ اس نے ایک لڑکے کو جلدی سے چائے لینے بھیجا تو دوسرے کو دوست کے ساتھ قبروں کا معائنہ کرنے ریکارڈ دیکھنے اور تصاویر لینے کے لیے بھیج دیا۔ گورکن اور میرے درمیان قریب کئی دہائیوں کا فاصلہ ہوگا مگر کچھ ہی دیر میں ہمارے درمیان کا فاصلہ سمٹ کر چائے کے کپ میں ڈوب گیا۔ہنسی مذاق اور دوستی گہری ہوگئی۔ چونکہ مجھے لوگوں میں سوشل ہونے کا بہت شوق رہتا ہے سو اس بہانے نئے لوگوں کے خیالات جاننے کا بھی موقع مل جاتا ہے.گورکن چاچا سے میں نے اپنی عادت کے مطابق سوالات شروع کر دئیے اور چند سوالات جو گورکن میری جانب پھینکتا میں ان کے تسلی سے جواب دیتا رہتا۔ گورکن نے بتایا کہ وہ پہلے کسی اور قبرستان کا انچارج تھا وہاں پچیس سال خدمت کی اور اب بیس پچیس سال سے اس قبرستان میں قبروں کی دیکھ بھال کر رہا ہوں۔
میں نے اس کریدا : کیا کبھی کسی پچھل پیری، بد روح یا کسی چڑیل کو رات گئے قبرستان میں دیکھا ہے ؟
چاچا گورکن نے جیب سے سگریٹ نکالی میری جانب بڑھائی جسے میں نے شکریہ کیساتھ واپس کر دیا. گورکن نے ماچس جلا کر سگریٹ سلگائی سور آسمان کو دیکھتے ہوئے گہرا کش مارا،
اور فضا میں دھواں چھوڑتے ہوئے کہا : ہاں پیر جی ، میں نے چڑیلیں دیکھیں ہیں۔
میں اس کے اس دعوے پر بڑا حیران ہوا : کیا کہہ رہے ہو چاچا واقعی چڑیلیں ہوتی ہے کیا ؟
” ہا منھنجا سائیں، ہاں میرے سائیں چڑیلیں ہوتی ہیں بد روح بھی ہوتی ہے ”
میں تھوڑا گھبرایا اور دل ہی دل میں آیت الکرسی پڑھی. عصر کی اذان کا وقت ہو چکا تھا قبرستان میں بالکل خاموشی چھا چکی تھی۔
ایسا لگتا تھا کہ پرندے بھی اب اِن درختوں سے اڑنے کو بےتاب ہوں۔ دور سے ٹریفک کی مدھم ہوتی اور کبھی فضا میں اڑتے کسی جہاز کی آواز ماحول کی خاموشی کو چیرتی ہوئی میری سماعتوں سے ٹکرا جاتی ۔
چاچا تو نے واقعی کسی چڑیل کو دیکھا ہے یا مذاق کر رہے ہو۔؟
نہ سائیں۔۔ میرا بھلا تیری ذات سے کیا مذاق۔ مجھے جانا نہیں دوزخ میں، ہاں میں نے چڑیل بدروح یہ سب دیکھی ہیں۔
سائیں وہ روتی ہیں کبھی کبھی، آواز دیتی ہیں راتوں کو، کہتیں ہیں، ہے کوئی ہمارے ساتھ انصاف کرنے والا. سائیں جنہیں انصاف نہیں ملتا جن کے ساتھ برا ہوا ہو وہ راتوں کو قبر سے باہر گھومتی ہیں چیختی ہیں روتی ہیں فریاد کرتی ہیں.
ذرا دیر کو خاموشی ہوئی۔
چاچا، چپ کیوں ہو؟
” سائیں وہ رو رو کر بتاتی ہیں کہ ان کے ساتھ کس نے زیادتی کی مگر سائیں انکی آواز آپ کو سنائی نہیں دے گی۔ مجھے سنائی دے گی، انکا میرا رشتہ ہے۔ دکھ کا رشتہ، مٹی کا رشتہ، پانی کا رشتہ، انکی قبروں کی صفائی جو کرتا ہوں۔ سائیں وہ میری قبریں ہیں ، میں انکا رکھوالا ہوں۔ وہ قبریں مجھے بلاتی ہیں۔ وہ آواز دیتی ہیں۔ ہمارا کہنے سننے کا رشتہ ہے۔ سائیں میں انکی دن رات خدمت جو کرتا ہوں۔ وہ مجھے کہانیاں سناتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں انکے ساتھ کیا ہوا۔ مگر میں کسے بتاؤں ؟ چپ ہوجاتا ہوں. میرے سینے میں کئی راز ہیں مالک، کئی راز ہیں۔ بہت سی قبریں ایسی ہیں جن پر آج تک کوئی نہیں آیا۔ میں ہی انکا بھائی بھی ہوں باپ بھی اور بیٹا بھی۔”
“چاچا تمہیں ڈر نہیں لگتا؟”
” نہیں لگتا سائیں”
“پھر بھی کسی سے تو ڈر لگتا ہوگا۔۔۔؟”
:” نہیں سائیں۔۔ بس پولیس کے علاوہ کسی سے ڈر نہیں لگتا۔”
اس بات پر ہم خوب ہنسے۔ ذرا دیر کو ماحول کا رخ پولیس اور عدلیہ کی جانب چلا گیا۔ چائے کا دوسرا دور چل نکلا تھا۔
” چاچا، قبرستان کی کسی بات سے تو خوفزدہ ہوتے ہوگے؟ کوئی رات تو ایسی ہوتی ہوگی جب نیند نہیں آتی ہوگی۔۔؟ ڈر لگتا ہوگا! ”
” ہاں سائیں ، سچ بتاؤں۔۔؟” ، ” ہاں چاچا بولو”
” سائیں۔۔ مجھے اس رات نیند نہیں آتی جب کسی عورت یا جوان لڑکی کو دفنایا جاتا ہے۔۔۔
اس رات سے لیکر کئی راتیں میں اس قبر کی چوکی ( رکھوالی) دیتا ہوں۔
بار بار اس قبر کے گرد چکر لگاتا ہوں۔”
” کیوں چاچا عورت کی قبر کی حفاظت کیوں؟ ایسی کیا بات ہے؟ ”
سائیں بات ہے۔ سمجھو سائیں۔ اگر چوکی نہیں دوں گا تو قبر کھل جائے گی اور لڑکی باہر نکل کر روئے گی۔۔
( گورگن مجھے کچھ سمجھانا چاہتا تھا)
کیا مطلب چاچا۔۔۔؟
” مرشد ایسی قبر جس میں عورت دفن ہو وہ محفوظ نہیں ہوتی، میں بھی بہن بیٹی والا ہوں سائیًں۔۔۔ڈر لگتا ہے منہ سے بات نکالی نہیں جاتی”
گورگن چاچا نے جس گھبرائے ہوئے انداز سے میرے کان کے قریب آ کر جو سرگوشی کی۔ جسم کانپ کے رہ گیا . دل کی رفتار تیز ہوگئی. درختوں کی ٹہنیوں پر بیٹھے پرندے یک دم پھڑپھڑانے لگے. ہاتھوں کو جیسے رعشے کے مرض نے گھیر لیا ہو۔ ماتھا پسینے سے بھر گیا۔ کالے کوٹ کے اندر آگ بھڑک چکی تھی۔ شرٹ پسینے سے شرابور تھی، بڑی مشکل سے چائے کا کپ فرش پر رکھا۔
” چاچا کیا یہ سچ ہے؟ ”
” ہاں سائیں سچ ہے بالکل سچ۔۔اس رات مجھے نیند نہیں آتی جس رات کسی عورت کا یا جوان لڑکی کا جنازہ دفنایا جاتا ہے. ”
دور سے میرا دوست گورگن کے بیٹے کے ساتھ واپس آرہا تھا. میں بڑی مشکل سے اٹھا، ایسا لگا کہ میں بوڑھا ہوچکا ہوں اور یہاں بیٹھے بیٹھے میں نے زندگی کے کئی سال گزار دیئے ہوں۔ میں نے جاتے ہوئے اپنا کارڈ اسے دیا اور کہا کہ چاچا پولیس سے ڈرنا نہیں، کبھی کوئی کام ہو تو مجھے فون کرنا۔ اس نے میرا کارڈ خوشی خوشی لیا اور جیب میں رکھ لیا۔
میں بڑی مشکل سے اپنے آپ کو سنبھالتے ہوئے باہر نکلا۔ باہر قدم ہی رکھ تھا کہ دیکھا قبرستان کے باہر ایک میت گاڑی آ کر رکی . میں دوست کے ساتھ رک گیا کہ چلو کاندھا دے لیتے ہیں۔ ایک صاحب قریب ہی پھولوں کی پتیوں سے بھری شاپر لیے کھڑے تھے۔ میں نے ان سے پوچھ لیا: کون فوت ہوا ہے؟
وہ صاحب بولے : پڑوسی کی بچی تھی، اچھی خاصی تھی نہ کوئی بیماری نہ کوئی تکلیف، پانی کی موٹر چلانے گئی تو کرنٹ لگ گیا. میں دوست کا ہاتھ پکڑ کر فوراً قبرستان سے باہر نکل آیا۔ یہ ہی سوچتے ہوئے کہ آج کی رات گورگن پر واقعی بھاری گزرے گی اور شاید مجھ پر بھی۔۔۔۔۔!!