اس کا نام اجیت شنکر تھا۔ نصیب کا کالا لیکن رنگت کا سفید۔ نجانے اس کالے کنبے میں یہ اجلے رنگ کا کیسے پیدا ہوگیا۔ نا اس کی ماں کے شوہر نے پوچھا اور نا اس نے خود۔ لیکن باقی شاید ہی کوئی بچا ہو اس بستی میں جس نے یہ نا پوچھا ہو۔ اجیت کو جب اس سوال کی سمجھ آگئی تو اس نے اپنی ماتا جی سے پوچھا۔
اس نے انگلی ہونٹوں پر رکھ کر ششش شش کی آواز نکالی اور اجیت نے اس لمحے ماتا جی کی آنکھوں میں نمی دیکھی۔ بس اس دن سے اس نے سر جھکا لیا۔ کیونکہ اسے آنکھوں کو پڑھنے سے خوف آنے لگا تھا۔
ماتا جی کے پیروں کو چھوا اور اس کے شوہر کو جسے وہ پتا کہتا تھا کو پرنام کیا۔ ان کو بتایا کہ اسے ڈھونڈنے کی کوشش نا کرنا ۔ یہ کہ کر اس نے ایک مرتبہ پھر سر اٹھایا تو پتا کی آنکھوں میں آسودگی نظر آئی اور ماتا جی کی آنکھ میں درد کی نمی لیکن اس دفعہ شدت کچھ زیادہ تھی۔ ہونٹ تو تھر تھرائے مگر الفاظ جامد رہ گئے۔
وہ ممبئی میں ہی تھا لیکن یہ شہر ہے ہی اتنا بڑا کہ ایک دفعہ جو ہاتھ چھوٹ جائیں تو دوبارہ تھامنے کو اگلے جنم کا انتظار کرنا پڑے۔ سو اجیت اسی شہر کی ایک بستی مہول میں آکر رہنے لگا۔ یہ ایک قدیم بستی تھی جس کی وجہ شہرت ماہی گیر تھے۔ لیکن اب یہاں صنعتی ترقی نے اس قدر زور پکڑا کہ یہ ایک انڈسٹریل ایریا کہلانے لگا۔ ارد گرد غربت اپنے جوبن پر تھی ۔
غریب بستیوں کی پہچان وہاں پھیلی ہوئی کچرا کونڈیاں اور گلی میں جگہ جگہ کپڑوں سے بےنیاز کھیلتے ہوئے بچے ہوتے ہیں ۔ ان کی صحت اکثر جو بچ جائیں، قابل رشک ہوتی ہے ۔ چست چاق و چوبند ہر چیز سے بے نیاز۔
اس نے بھی اپنے رہنے کو فٹ پاتھ کے ساتھ نالے کے اوپر بنی تجاوزات پر قائم ایک کھولی چند اپنے جیسے بےنام لوگوں کے ساتھ مل کر لے لی۔
ساتھ ہی ایک فیکٹری کے پاس جاکر کپڑا لے کر بیٹھ جاتا ۔ آتے جاتے لوگوں کے جوتوں پر کپڑا مارتا ۔ کچھ تو سکے پھینک دیتے اور کوئی ستم کا مارا اسے ٹھڈا بھی مار دیتا۔ وہ چپ چاپ سہ لیتا۔
رنگ ایسا شفاف کہ غربت، حالات اور ماحولیاتی آلودگی کے باوجود پانی کے چند چھینٹوں سے نکھر جاتا۔۔۔۔۔ یہاں کے مقامی تو کالے رنگ کے ہی تھے انہیں اچھا خاصا سانولا بھی نہیں کہا جاسکتا تھا۔ لیکن وہ کہتے ہیں نا کہ خوبصورتی رنگوں سے بےنیاز بھی اپنی داستان سناتی ، دکھاتی نظر آتی ہے۔ تو سنیتا بھی کچھ ایسی ہی تھی ۔ رنگ تو پکا تھا لیکن آنکھوں کی لمبائی ، گہرائی سے متوجہ کرلیتی۔ اوپر سے کھڑی ناک ، ہر وقت دنداسہ دانتوں پر ملتی۔ ماتھے پر بندیا اور کس کر باندھے ہوئے بالوں پر پراندہ جو کمر پر لہرا رہا ہوتا۔
اس کا گھر والا قریب فیکٹری میں مزدوری کرتا۔ پیسے مناسب کمالیتا لیکن ذہن کا مفلس ۔ سگریٹ پینے سے ہونٹ اس قدر کالے کہ کالے رنگ پر بھی الگ نظر آتے۔ پیلے دانت ۔ ٹانگ میں ہلکا سا لنگ۔ بے ترتیب کچھڑی داڑھی۔ چار بچے اس کے باوجود ان دونوں کے تھے۔
سنیتا بازار کو جاتی تو اجیت کو کبھی کسی فیکٹری کے گیٹ پر بیٹھا دیکھتی تو کبھی کدھر۔ ایسے بیسیوں تھے لیکن اس کا رنگ اس کی شناخت کروادیتا۔ سنیتا اسے دیکھ کر آہ بھرتی کہ کاش اس کے قریب ہوتا۔
پہلے پہل تو سنیتا نے وہم جانا لیکن پھر اجیت نظر نا آتا تو گھٹ کے رہ جاتی۔ حسرت کرتی۔ نظر بھر کر دیکھنے کو بازار بلاوجہ جانے لگی۔
اجیت سکوں سے بمشکل کھولی کی دہاڑی پوری کرتا۔ پیٹ بھر کر کھانا بس اک خواب ہی تھا۔ نیند بھی اب ادھ بھرے پیٹ کی عادی ہوچکی تھی سو آ ہی جاتی۔ صبح سویرے اجیت کو مندر کی گھنٹیاں کانوں میں سنائی دیتی تو اس کی روح میں وجد پیدا ہوجاتا۔ اس کی روح جسم کو کھینچ کھینچ کر کالی ماتا کے چرنوں میں لے جاتی۔ وہ ایک سکہ ضرور اس کی دان چڑھاتا۔ وہ بھگوان کے درشن کرتا۔ اسے ہمیشہ بھگوان کی آنکھوں میں دیکھنا اچھا لگتا کیونکہ اس کی آنکھیں بے نیار تھی ، سکھ سے دکھ سے۔ وہ سوچتا، پھر خود ہی جواب دیتا کہ بھگوان کی آنکھوں کا وہی رنگ ہوگا جو اپنی آنکھ کا ہوگا۔ اس دن سے اسے بھگوان کی آنکھوں میں درد اور سکھ بھی نظر آنے لگا۔
سنیتا نے ایک دن اپنی جوتی اجیت کے آگے کی۔ اس نے تو سر اٹھانا ہی چھوڑ دیا تھا لیکن زنانہ چپل اور ساڑھی کا پلو جو اسے کے چہرے سے ٹکرایا تو آنکھ اوپر ہوئی۔ مسکراتے ہونٹوں سے آواز آئی اوہ گورے لگا کپڑا۔
اس نے سر نیچے کیا کپڑا مارا۔ پہلی مرتبہ اس کو سکے کی جگہ کاغذ کا نوٹ ملا۔
اجیت شنکر کی وہی صبح، مندر کی گھنٹیاں ، روح کی پکار ۔ اسے بھگوان کی آنکھوں میں اپنے لئے پیار نظر آنے لگا تھا۔۔۔۔۔ اس دن اس نے بھگوان سے پرارتھنا کی کہ اسے پیٹ بھر کر کھانا نصیب ہوجائے۔ اسے اپنے بھگوان پر بہت بھروسہ تھا۔
کچھ دن گذرے سنیتا نے اسے ایک تھیلا دیا۔ اس میں جوتے پالش کرنے کا سامان تھا۔ اس نے سر اٹھا کر سنیتا کی آنکھوں میں دیکھا اسے وہاں بھگوان نظر آیا۔ اس نے اسے پرنام کیا ۔ سنیتا ہنسی اور خاموشی سے چل دی۔ جوتے پر پالش لگنے لگی تو سکے روپوں میں بدلنے لگے۔ اجیت کی پرارتھنا پوری ہونے لگی۔۔۔۔۔
اس نے ہزار روپیہ جمع کیا۔ صبح صبح مندر کی گھنٹیاں اس کے کانوں میں رس گھولنے لگی۔ اس کی روح نے جسم کو بیدار کیا۔ مندر کالی ماتا کے آگے ماتھا ٹیکا۔۔۔۔ سو روپے مندر کی پیٹی میں دان کئے۔ بازار سے گذرا تو حلوہ پوری کی خوشبو نے اس میں اشتہا پیدا کی۔ حیران ہوا کہ پہلے یہ کیفیت کیوں نا گزری۔ جیب میں ہاتھ ڈالا نوٹ انگلیوں سے مس ہوئے تو جواب مل گیا ۔ اس نے پہلی مرتبہ خوب پیٹ بھر کر کھایا۔
کام پر بیٹھا تو زنانہ پاؤں اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ ساڑھی کا پلو جو چہرے سے ٹکرایا تو اسے عجیب لطیف سا احساس ہوا۔ اس نے سنیتا کی آنکھوں میں جھانکا تو بھگوان نظر نا آیا۔ اس نے درد اور دکھ تو آنکھوں کے دیکھے تھے لیکن شرارت پہلی مرتبہ نظر آئی۔
رات کو بھی سیر ہوکر کھانا کھایا۔ لیٹا اور سوگیا۔ آنکھ کھلی تو سورج سر پر تھا۔ نا مندر نا گھنٹی۔ یہ کیا ہوا۔ ساتھی سب کام پر جاچکے تھے۔
کل کی تازہ تازہ پوریاں آنکھوں کے سامنے آئیں ۔ اٹھا اور برش پالش کا تھیلا بھی ساتھ لیا۔ ناشتہ کرکے ایک فیکٹری کے سامنے بیٹھا ہی تھا کہ زنانہ پاؤں آنکھوں کے نیچے ۔ ساڑھی کا پلو جو ٹکرایا تو اس نے گہری سانس لی ۔ مہکی سے خوشبو اور رت ہی بدل گئی۔
سنیتا کی آنکھوں میں جھانکا۔۔۔ شرارت ، اور بہت شرارت۔
سنیتا آگے اور وہ پیچھے پیچھے۔ مکان میں سنیتا داخل ہوئی اس نے گردن سے اجیت کو اندر بلایا۔ دروازہ بند ہوگیا۔۔
روح کی بےچینی اس کے جسم پر اس قدر حاوی ہوچکی تھی کہ اسے اپنا وجود لاغر محسوس ہورہا تھا۔ بےچینی کا سبب اسے معلوم بھی تھا لیکن پھر بھی وہ یک ٹک آسمان کی طرف منہ کرکے یوں دیکھ رہا تھا کہ اس کی مضطرب حالت کا نوشتہ کہیں آسماں پر لکھا جانے والا ہے۔ وہ اپنے بدن کو جھنجوڑ رہا تھا اس کو زور زور سے مسل رہا تھا کہ گویا شہر بھر کا گند اس سے چپک گیا ہو.
رات کو وہ خالی پیٹ سویا۔۔ صبح اس کی آنکھ کھلی مندر کی گھنٹیاں جو کانوں میں بجی تو روح نے جسم کو دستک دی۔ وہ مندر گیا اور بھگوان کے چرنوں میں بیٹھ گیا۔ وہ بھگوان کی آنکھوں میں دیکھ نہیں پارہا تھا۔ اس کے آنسو ٹپ ٹپ گر رہے تھے۔اس نے ہاتھ سے آنسو صاف کئے اور آنکھیں ادب سے جھکا کر بولا اے بھگوان میں تجھ سے بنتی کرتا ہوں کہ مجھے کبھی بھی پیٹ بھر کر کھانا نصیب نا ہو.