کسی بھی معاشرے کے روشن مستقبل میں اس معاشرے کا نظام تعلیم بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔ کسی بھی معاشرے میں نظام تعلیم ایسا بنایا جاتا ہےجو وہاں کےماحول ، رسم و رواج ، اخلاقی اقدار اور وہاں کی مذہبی تعلیمات پر مبنی ہوتا ہے ۔ لیکن پاکستان میں بد قسمتی سے نظام تعلیم کو اتنے درجوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے کہ ہر سکول ، اور ہر ادارے نے اپنا نصاب خود بنایا ہوا ہے ۔کسی بھی سکول کا نصاب اٹھا کر دیکھ لیں کسی بھی تعلیمی ادارے میں چلیں جائیں آپ کو ہر ادارہ ہی رٹہ سسٹم پر مبنی نظر آئے گا ۔ جس تعلیمی ادارے میں بچے پر کتابوں اور کاپیوں کا جتنا زیادہ بوجھ لادا جائے گا وہ ادارہ اتنا ہی بڑا تعلیمی ادارہ سمجھا جائے گا ۔جس ادارے میں جتنی زیادہ فیس ہو گی اس ادارے کا معیار اتنا ہی بلند سمجھا جاٸے گا ۔ جس سکول کے بچوں کا بیگ جتنا زیادہ وزنی ہو گا وہ سکول دیگر سکولوں سے اتنا ہی بلند اور معیاری سمجھا جائے گا ۔ ہمارے ہاں یہ بات اکثر دیکھنے کو ملتی ہے کہ جس تعلیمی ادارے کی فیس جتنی زیادہ ہوگی اس ادارے کو ملکی سطح پر بھی بہترین ادارہ قرار دیا جائے گا بیشک بورڈ میں ٹاپ پوزیشن ہولڈرز کسی تندور پر روٹی لگا کر ہی اپنی تعلیم جاری رکھنے والا انسان ہو ۔
پاکستان جیسا معاشرہ جس کا نصاب تعلیم ایسا ہونا چاہیےجہاں صرف اورصرف تربیت اور حسن اخلاق کا سبق دینا چاہیے وہاں ہر ادارے کا اپنا نصاب بنا ہوا ہے جسے رٹہ سسٹم کے تحت آگے بڑھانے اور چلانے کی سر توڑ کوششیں ہمیشہ سے جاری رہی ہیں ۔ رٹہ سسٹم جس نے نہ صرف ہمارے بچوں کی نشوونما پر غلط اثرات مرتب کیئے ہیں وہیں ہمارے بچوں کو ڈپریشن جیسے مرض میں بھی مبتلا کر دیا ہے ۔ ہر وقت ہوم ورک کی ٹینشن ، زیادہ نمبر حاصل کرنے کی ٹینشن ، روزانہ دس دس کتابوں کا ہوم ورک لکھنے کی ٹینشن اور اتنی ہی کتابوں کو رٹہ لگانے کی الگ ٹینشن ،سکول کی الگ ٹینشن ، ٹیوشن کی الگ ٹینشن ۔
ہمارے دینی مدارس ہمارے بچوں کو پتھر کےزمانےمیں لے جانے کی کوشش کر رہے ہیں اور نت نئی ایجادات اور علوم کو اپنے اوپر حرام قرار دئیےبیٹھے ہیں جبکہ ہماری یونیورسٹیز ہمارے بچوں کو آزاد ماحول دے کر ہمارے بچوں اور ان کے والدین کی عزتوں کا جنازہ نکالنے کو جدید تعلیم کا نام دئیے بیٹھے ہیں ۔ مدارس کی تعلیم ہمیں بتا رہی ہے کہ جدید تعلیم گناہ کبیرہ ہے زمانے کے ساتھ چلنے کو ایمان کی خرابی کہا جاتا ہے جب کہ ہماری یونیورسٹیز ہمیں بے حیا بنا کر مغربی عورتوں کی طرح در در کی ذلت میں دھکیلنا چاہتی ہے ۔
وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم سب سے پہلے اپنے نظام تعلیم پر توجہ دیں ۔ رٹہ سسٹم کو چلتا کریں اور کتابوں ، کاپیوں ، ٹیسٹوں پر توجہ دینے کی بجائے بچوں کی تربیت اور اخلاق پر توجہ دیں ۔تاکہ ہمارا مستقبل پڑھا لکھا جاہل ہونے کی بجائے تربیت یافتہ اور اعلی اخلاق سے مزین روشن مستقبل بنے ۔ وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہم مدارس اور یونیورسٹیز کا نظام تعلیم ایک کریں تا کہ معاشرے میں دو متضاد شخصیات کے حامل لوگ جنم نہ لے سکیں ۔ یونیورسٹیز کا نصاب ایسا ہو جو ہمارے دین اسلام کی تعلیمات کی عکاسی کرے ۔ نا صرف نصاب دینی تعلیمات پر مبنی ہو بلکہ ہماری یونیورسٹیز کا ماحول بھی ہمارے دین کا عکاس ہونا چاہیے ۔
اللہ پاک ہمارے مستقبل کو اپنے دین کے مطابق روشن بنائے تاکہ ہمارا معاشرہ مزید تضادات سے بچ سکے ۔ آمین