حیوانات کی تخلیق کا قصہ، کچھ راز کی باتیں : فرزانہ کوثر

یوں تو اللہ تعالی کے دنیا کو تخلیق کرنے کا مقصد انسان کی سمجھ سے بالاتر نہیں کیونکہ اللہ عزوجل نے انسان کو سوچنے سمجھنے کی صلاحیت سے نوازا ہے اور قرآن پاک میں بھی کئی جگہوں پر انسان کو غور و فکر کی دعوت دی ہے۔ اللہ تعالی نے یہ دنیا اپنے پیارے محبوب حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق میں تخلیق کی اور پھر اس دنیا میں کئی طرح کی مخلوق کو پیدا کیا ۔
ان مخلوقات میں جانور، پرندے، درندے غرض ہر قسم کے چرند پرند شامل ہیں۔
آئیے آج ان میں سے کچھ مخلوق کی تخلیق اور معلومات کے بارے میں بات کرتے ہیں ۔ کتابوں کے مطابق ابلیس یعنی شیطان جن تھا اللہ تعالی نے اس کی عظیم عبادتوں کی وجہ سے اسے فرشتوں میں شمار کیا بعد ازاں اس کی ریاضتوں کاسلسلہ شروع رہا ۔ چونکہ یہ وہ دور تھا جب ابلیس جنت میں تھا اور جنت کی زمین کا کوئی حصہ یا ٹکڑا ایسا نہ تھا جس پر ابلیس نے سجدہ نہ کیا ہو ۔ وہ ان سجدوں، عبادتوں اور ریاضتوں کا نتیجہ تھا کہ اللہ تعالی نے ابلیس کو فرشتوں کا سردار بنا دیا لیکن پھر شیطان غرور کا شکار ہو گیا اور اس نے مٹی کے پتلے یعنی سیدنا حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا اور یہاں سے ہی خیر اور شر کی طاقتوں کا آغاز ہوا۔ قدیم صحائف اور کتابوں کے مطابق ابلیس کو جب حکم دیا گیا کہ سیدنا آ دم علیہ السلام کو سجدہ کرو تو اس نے حقارت سے حضرت آدم علیہ السلام پر تھوک دیا۔شیطان کا تھوک حضرت آدم علیہ السلام کے پیٹ پر جا گرا تھا۔ بعد ازاں اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو حکم دیا کہ جہاں حضرت آدم علیہ السلام پر تھوک گرا وہ مٹی نکال لاؤ۔اللہ کے حکم کے مطابق جب مٹی نکال لائے تو وہاں ایک چھوٹا سا سوراخ بن گیا یہ سوراخ آ ج بھی ناف کی شکل میں ہمارے پیٹ پر موجود ہے جسکو پنجابی میں (دھنی) کہتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اس ناف کی مٹی سے کتا بنایا تھا اور کتے میں تین خصلتیں ہوتی ہیں پہلی یہ کہ کتا انسان سے محبت کرتا ہے کیونکہ یہ انسان کی مٹی سے بنا تھا ، یہ رات کو جاگتا ہے اس لیے کہ اسے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ہاتھ لگے تھے ، یہ انسان پر بھونکتا ہے کیونکہ شیطان کا بھوت کتے میں شامل ہے اور کتا ہی وہ واحد مخلوق ہے جو کہ رات کے اندھیرے میں شیطان کے قافلے دیکھتا ہے تو وہ خوفناک آوازیں نکالتا ہے۔ یہ ہے کتے کی تخلیق اور حقیقت۔

مکھی چونکہ ایک معمولی سی مخلوق ہے لیکن اس کی تخلیق کا مقصد بہت بڑا ہے ہم چونکہ اپنی فانی دنیا اور اس کی خوبصورتی کو ہی اپنا اصل ٹھکانہ سمجھتے ہیں کہ ہمیں اردگرد کی مخلوق پر غور و فکر کا وقت ہی نہیں ملتا اگر ہم چھوٹی سی مکھی کو ہی دیکھیں تو سوال جنم لیتا ہے کہ آخر اس مکھی کی تخلیق میں اللہ کی کیا حکمت ہے ؟
خراسان کا ایک بادشاہ شکار کھیل کر واپس آنے کے بعد اپنے تخت پر بیٹھا تھا تھکاوٹ کی وجہ سے اس کی آنکھیں نیند سے بوجھل ہو رہی تھی بادشاہ کے پاس ایک غلام ہاتھ باندھے ادب سے کھڑا ہوا تھا بادشاہ کو چونکہ سخت نیند آئی ہوئی تھی مگر جب بھی اس کی آنکھیں بند ہوتی تو ایک مکھی اس کی ناک پر آ کر بیٹھ جاتی اور نیند اور بے خیالی کی وجہ سے بادشاہ غصے سے اس مکھی کو مارنے کی کوشش کرتا ہوں ہر بار اپنے چہرے پر پڑتا تھا تھا کیونکہ مکھیاں اڑ جاتی تھی جب دو تین بار ایسا ہوا تو بادشاہ نے ہاتھ باندھے ادب سے کھڑے غلام سے پوچھا کہ اللہ نے اس مکھی کو کیوں پیدا کیا ہے اسے پیدا کرنے میں اللہ کی کیا حکمت پوشیدہ ہے ہے غلام نے بادشاہ کا سوال سنا تو اس نے جواب دیا جو کہ سنہری حروف میں لکھے جانے کے قابل ہے ہے غلام نے جواب دیا کہ اللہ نے مکھی کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ بادشاہوں اور سلطانوں کو یہ احساس ہو کہ بعض اوقات ان کے ذریعے زمینی بادشاہوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ یہ جو تم زمین پر بادشاہ بنے پھرتے ہو تمہاری حیثیت کیا ہے تمہارا زور تو ایک مکھی پر بھی نہیں چلتا تو تم اس اللہ کا کیسے مقابلہ کرو گے جس نے زمین اور آسمان پیدا کیے جس نے تمام مخلوقات کو پیدا کیا ہے یقینا تمام جہانوں کا مالک صرف اللہ ہے۔ کہتے ہیں کہ بادشاہ کو غلام کی یہ بات اتنی پسند آئی کہ اس نے غلام کو آزاد کرکے اپنا مشیر مقرر کر لیا ۔

بلی کو پیدا کرنے کی اللہ کی حکمت کچھ یوں ہے جب حضرت نوح علیہ السلام کی قوم پر پانی کی صورت میں سیلاب کا عذاب آیا اور اللہ تعالی نے حضرت نوح علیہ السلام کو کشتی بنا کر اس میں سوار ہونے اور ہر جاندار اور پرندے کا ایک ایک جوڑا کشتی میں محفوظ کرنے کو کہا تو حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ کے حکم کی تعمیل کی۔ کشتی پانی میں تھی اور اس دوران کشتی میں چوہے پیدا ہوگئے انہوں نے کشتی کو کاٹنا شروع کر دیا جس کی وجہ سے کشتی میں پانی داخل ہونے کا خدشہ پیدا ہوا تب حضرت نوح علیہ السلام نے اللہ سے دعا کی کہ اے پروردگار مجھے ان چوہوں سے نجات دلائیں تب اللہ عزوجل نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو پیغام دے کر بھیجا کہ اے نوح علیہ السلام کشتی میں موجود شیر کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرو جو حضرت نوح علیہ السلام نے شیر کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو شیر کے ناک سے زوردار چھینک آئی اور اس کے دونوں نتھنوں سے بلیوں کا ایک جوڑا نراورمادہ کشتی میں گر پڑے جنہوں نے کشتی میں موجود سارے چوہوں کا صفایا کردیا ۔

( تاہم یہ بات غور طلب ہے کہ سارے چوہوں کا صفایا ہوجانے کے بعد بھی چوہوں کی نسل دنیا میں کیسے باقی رہی، ممکن ہے سیلاب کے بعد بلی کے نتھنوں سے بذریعہ چھینک وہ چوہے بھی باہر نکلوا لیے ہوں: مدیر)

مور اور سانپ چونکہ پہلے جنت میں رہتے تھے ۔ مور جتنا اب خوبصورت ہے جنت میں اس سے کئی گناہ زیادہ خوبصورت تھا اور مور کے پاؤں بھی بے حد خوبصورت تھے سانپ کو بھی جنت میں اللہ نے پاؤں سے نواز رکھا تھا اور سانپ کے منہ سے جنت کی خوشبو جسے ابرق کہتے ہیں آتی تھی کیونکہ مور اور سانپ جنت سے باہر آیا جایا کرتے تھے ایک دن جب دونوں جنت سے باہر ہے تو ان کی ملاقات شیطان سے ہوئی کیونکہ شیطان کو اللہ نے جنت سے نکال دیا تھا اور شیطان کسی بھی طرح دوبارہ جنت میں داخل ہونا چاہتا تھا اس نے کہا کہ مجھےبھی اندر جنت میں لے چلو مور نے کہا نہیں ہمیں اللہ کا خوف ہے ہم تمہیں اندر نہیں لے جاسکتے۔ شیطان نے سانپ کو اپنی دوستی کا واسطہ دیا تب سانپ نے شیطان کو مشورہ دیا کہ تم سانپ بن جاو اور میں تمہیں نگل کر جنت میں جا کر اگل دونگا۔ چنانچہ شیطان نے یہی کیا وہ سانپ بن گیا اور میں نے اس کو نگل لیا اور جنت میں جاکر اگل دیا۔ اور یوں شیطان ایک بار پھر جنت میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگیا جنت میں داخل ہونے کے بعد شیطان نے حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا علیہا السلام کو ورغلایا اس نے تمہیں منع کیا ہے جیسے حضرت آدم علیہ السلام اور بی بی حوا نے پھل کھایا اللہ نے ان دونوں سے جنت کا لباس اتار دیا اور جنت سے نکال کر زمین پر بھیج دیا اور مور سے اس کی خوبصورتی چھین لی اور اس کے پاؤں کو اتنا بدصورت کر دیا کہ وہ ساری زندگی اپنے پاؤں کو دیکھ کر روتا رہتا ہے اور سانپ کے منہ سے خوشبو اور پاؤں بھی چھین لیے اور سانپ کی خوشبو کی جگہ ہمیشہ کے لیے زہر بھر دیا۔

Leave a Reply