اسلامیہ کالج پشاور میں جنسی ہراسانی: جابر خان ایڈوکیٹ

پدرانہ نظام معاشرت کا سب سے تاریک اور دل دکھانے والا پہلو یہ ہے کہ اس کے خلاف اٹھنے والی آوازوں کو ہمیشہ ہر جائز ناجائز طریقے سے دبا دیا جاتا ہے ۔ اور معاشرے میں اس کے بھینٹ چڑھنے والی اگر کوئی خاتون اپنا سب کچھ داو پہ لگا بھی دے تب بھی انھیں منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔

آپ لوگوں کو یاد ہوگا کہ ایک سال قبل صوبے کی سب سے بڑی اور تاریخی یونیورسٹی اسلامیہ کالج کی ایک طالبہ کے ساتھ جنسی ہراسگی کا واقعہ پیش آیا تھا جس کے خلاف تاریخ میں پہلی بار طالبات نے احتجاج کیا اور اس احتجاج کو انٹرنشنل اور نیشنل دونوں میڈیا نے بھر پور کوریج بھی دیا ۔ مگر اس کے بعد کیا ہوا وہ کہانی بہت عجیب اور دل دکھانے والی ہے ۔

اس حقیقت کو بیان کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ اسلامیہ کالج کے اساتذہ اور انتظامیہ نے اپنے ساتھی پروفیسر کو بچانے کےلئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ۔ اس احتجاج میں شامل تمام طلبہ اور طالبات کو پریشرائز کیا گیا ۔ کمیٹیاں بنائی گئیں۔ مگر متاثرہ طالبہ نے شکست نہیں مانی اور ہر طرف سے اس تمام دباؤ اور پریشر کے باجود چٹان کی طرح مضبوط کھڑی رہی ۔ جنسی ہراسگی کے صوبائی محتسب ادارے نے اس واقعہ کا نوٹس لیا اور کیس کو بہت باریک بینی سے جانچ کر اس پروفیسر کے خلاف فیصلہ سنا دیا ۔ روشن خیال اور حق پرست طبقہ نے اس فیصلہ کو خوش آئند قرار دیا ۔ مگر المیہ یہ ہے کہ وہ پروفیسر آج بھی بڑی ڈھٹائی سے اپنے سیٹ پہ براجمان ہے اور تو اور اس کو شعبہ کے سربراہ کےلئے تین سال کی مزید ایکسٹینشن بھی مل گئی ہے ۔

کہانی کچھ یوں ہے کہ صوبائی محتسب کے فیصلے کے بعد انتظامیہ کو چاہئے تھا کہ اس درندہ پروفیسر کو گھر بھیج دیتے مگر انتظامیہ نے گورنر سے اپیل کی اور گورنر صاحب اپنی سیاسی ہٹ دھرمی سے پھر متاثرہ خاندان پہ صلح اور راضی نامہ کےلئے دباو ڈال رہا ہے جو کسی بھی لحاظ سے انسانی اور معاشرتی اقدار کے مطابق نہیں اور نہ ہی معزز گورنر کو کوئی حق پہنچتا ہے کہ ایک صوبائی ادارے کے فیصلے کو تبدیل کرکے ویکٹم کے بجائے اس درندے کے ساتھ کھڑا ہو ۔

پچھلے چھ ماہ سے ہر طریقے سے متاثرہ طالبہ اور ان کے خاندان کو گورنر کی جانب سے پریشرائز کیا جارہا ہے ۔

اب وہ طالبہ شدید سیکورٹی خدشات کی وجہ سے یونیورسٹی آنے سے قاصر ہے ۔ ( اس سیکورٹی خدشات سے باقاعدہ طور پہ ایک درخواست کی شکل میں وائس چانسلر کو آگاہ بھی کیا جاچکا ہے ) ۔

اگر اس فیصلہ پہ عمل نہیں کیا گیا اور گورنر اپنی ہٹ دھرمی پہ قائم رہ کر اس درندہ صفت شخص کے ساتھ کھڑا رہتا ہے تو کیا پھر کوئی متاثرہ لڑکی اسی جرات کرسکے گی ؟
یہ صرف ایک طالبہ کا مسلۂ نہیں معاشرے کے مستقبل کا فیصلہ ہے ۔
کیا اسی پروفیسر کی موجودگی میں متاثر طالبہ اپنی تعلیم جاری رکھ سکے گی م
کیا آئندہ کوئی لڑکی ایسے درندوں کے خلاف آواز آٹھا سکے گی ؟
بحثیت بھائی ، شوہر باپ ہمیں فیصلہ کرنا ہوگا کہ ہم کہاں کھڑے ہیں ؟
کل کو یہ طالبہ ہماری اپنی بہن ، بیٹی بھی ہوسکتی ہے !
اس لئے تمام لوگوں سے گزارش ہے کہ اس متاثرہ لڑکی کے ساتھ کھڑے ہوجائیں اور عدالت عدلیہ کے فیصلے میں ٹال مٹول کرنے والی یونیورسٹی انتظامیہ اور گورنر کے خلاف آواز اٹھائیں ۔

Leave a Reply