غرور و تکبر را کنار بگزار؛فیصل آباد میں رونما ہونے والا واقعہ انسانیت کےمنہ زوردار طمانچہ ہے،ایسا طمانچہ جس کی لاسیں وقت کبھی مندمل نہیں کر پائے گا اور اس طمانچہ کی زناٹے دار آواز ہمیشہ ہمارے کانوں کو بہرہ کرتی رہے گی۔
فیصل آباد کا ایک با اثر رہائشی اپنے ہائی اسٹیٹس کے غرور اور تکبر میں مبتلا ہو کر فرعونیت کےاس درجے تک پہنچ گیا کہ انسانیت تار تار کر دی محض اپنی انا کی تسکین کی خاطر ایک لڑکی کے ساتھ وہ انسانیت سوز کھیل کھیلا کہ شاید شیطانیت نے بھی منہ چھپا لیا ہو ۔
انسانیت کی تذلیل اس انداز میں کہ انکار کی آگ میں بھڑک کر اس شیطان نے ابن آدم سے جوتیاں چٹوائیں اس اسرار کے ساتھ کہ جوتی چاٹتے ہوئے زبان نظر آئےاور اس لڑکی کی عزت پامال کی تب جاکر اس بھیڑئیے کی بھوک شاید کچھ کم ہوئی ہو ۔
شیطانیت کا یہ کھیل کتنے دورانیے تک کھیلا جاتا رہا اور کب تک انسانیت اپنی لاش پر بین کرتی رہی اور کوئی نہیں جان سکتا ماسوائے اس لڑکی کے کہ جو اب نہ زندہ میں ہے نہ مردہ میں اسقدر جبر ، جنونیت اور لاقانونیت کو پروان چڑھانے میں ہم سب کا کچھ نہ کچھ کردار ضرورہے، ایک باشعور قوم کی طرح ہم سب اپنا کردار نبھانے میں یکسر ناکام ہو چکے ہیں۔
پاکستانی قوم کا مزاج پچھلی چند دہائیوں سے جنونیت کی جانب اسطرح مائل ہو چکا کہ اب بردباری، عاجزی، انکساری اس قوم کی روش رہی ہی نہیں، چھینا جھپٹی، اپنا آپ منوانا ہرقیمت پر ان تمام رویوں کو پروان چڑھانے والا امر لا قانونیت ہے، قانون اتنا کمزور ہوچکی ہے کہ امرا اور با اثر شخصیات کے آگے تو ریت کی دیوار کی طرح ڈھے جاتا ہے اور غریب، مسکین، بے کس اور سفید پوش کو اس طرح چیر پھاڑ دیتا ہے کہ جیسے بھوکا شیر اپنے شکار کو لتاڑتا ہے۔
اور قانون کو کمزور کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتے ہیں صاحب اختیار جب وہ اپنے اختیارات کا حق اور سچ پر استعمال نہیں کرتے تو یونہی انسانیت زلالت کی گھاٹیوں کے اندھیرے میں ڈوب جاتی ہے ، قانون کے شکنجے میں صرف لاچار کی گردن ہی آتی ہے اور با اثر کے سامنے قانون خود مغلوب ہوجاتا ہے۔
قانون کی یہی کمزوری معاشرے کی تباہی کا اصل امر ہے کہ ہر شخص اپنی عدالت خود لگا لیتا ہےاورانسانیت کو وہ وہ سزائیں جھیلنے پڑتی ہیں کہ تقدیس آدم سسک سسک کر دم دے چکی ، وہ معاشرے ہمیشہ تباہی کا شکار ہوتے ہیں جہاں کمزور اور طاقتور کا توازن قائم نہیں کیا جاتا،جو بےنوا ہے اسے کچل دیا جاتا ہے اور جو اپنے اونچے اسٹیٹس کی گھن گرج دکھلاتا ہے اس کے سامنے قانون ، عدالت اور اختیار بے دم ہو جاتے ہیں !!
آسماں اتنی بلندی پہ جو اتراتا ہے
بھول جاتا ہے زمین سے ہی نظر آتا ہے ۔