کے ٹو جتنا جگرا چاہیے کے ٹو سر کرنے کیلیے : ادریس بابر

پاکستانی کوہ پیما محمد علی صد پارہ کے ٹو سر کرتے کرتے کہیں کھو گئے ہیں۔ صد پارہ خود تو مشہور کوہ پیما ہیں ہی ، ان کے خاندان کے بہت سے افراد بھی اس شعبے سے وابستہ ہیں۔

یوں کہہ لیں کہ محمد علی صد پارہ کوئی شوقیہ فنکار نہیں بلکہ استاد کی حیثیت رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہو کہ ایسے خطرناک موسم میں انہوں نے کے ٹو کی سی بلند ترین چوٹی سر کرنے کی ٹھان لی۔ اور وہ بھی آکسیجن جیسے لوازمات کے بغیر۔ کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ صد پارہ تو ضد پارہ بن گئے ہیں۔

جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ چوٹی سر کرنا خالہ جی کا گھر نہیں بلکہ اس چڑھائی اور اترائی میں بھی دو چار بڑے سخت مقام آتے ہیں۔ اور ایسے ہی آخری مقام پر جا کر ان کا رابطہ بیس کیمپ سے منقطع ہو گیا۔

جیسے ان کی مہم کے دوران ایک دنیا کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں ویسے ہی ان کے غائب ہونے پر تشویش پھیل گئی۔ ان کی تلاش میں ایک طرف ان کے رشتے دار کوہ پیما نکل آئے تو دوسری طرف فوجی ہیلی کاپٹر بھی بلند ہوئے۔ صد پارہ کی اپنی مہم جوئی کی طرح ان کی تلاش کو تعریف کے ساتھ تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا۔ رہا شاعر تو اس نے اس سارے قصے کو ایک ہلکے پھلکے سے شعر میں یوں سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔

ٹکے ٹکے کی باتیں کرنے والو! ڈرنے مرنے والو!
کے ٹو جتنا جگرا چاہئیے کے ٹو سر کرنے کے لیے

Leave a Reply