اقبال کا پیغام نوجوانوں کے نام(9 نومبر 2022): سعد جامی

سعد تمہیں یہ خط اس لیے لکھ رہا ہوں کہ آج میرا یومِ پیدائش ہے۔سرکار نے بھی تعلیمی دفاتر بند رکھنے کا حکم دیا۔ مجھے اس بات کی خوشی بھی ہے کہ مجھے یاد رکھا گیا لیکن اک بات سمجھ نہیں آئی کہ سڑکیں کیوں بند ہیں؟
خیر چھوڑو، مجھے تو خوشی ہے کہ میرے جوان آج بھی میرے پیروکار ہیں لیکن رکو! تعلیمی دفاتر بند، سڑکیں بند! ویسے میرے جانے کے بعد میرا کلام بھی پڑھتے ہو یا نہیں؟ جواب دینا لازمی اور دین ومذہب سے کوئی روابط رکھی ہوئی ہے ناں؟
ویسے ایسٹ انڈیا کمپنی کے زیر اثر رہنے والی دو قومیں آج آزاد ہیں تمھیں کیسا لگا یہ آزادی دیکھ کر؟ کل تو دفاتر بند ہوں گے تم اپنا جواب 10 نومبر کو دینا، میں انتظار کروں گا۔

جوابِ خط
آپ کا خط موصول ہوتے ہی، میں نے قلم اور کاغذ لیا اور جواب لکھنے لگ گیا۔ اور خط آپ کو آج ہی موصول کر ہو جائے گا۔ ڈاکیا بز ریعہ ڈاک کا قائل نہیں۔ کسی طرح آپ تک آج ہی پہنچا دے گا۔آپ کے پوچھے گے سوال میں مجھے آپ کا اک شعر ہی یاد ہے۔

نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشت ویراں سے
ذرا نم ہوتو یہ مٹی بڑی ذر خیز ہے ساقی

یہ شعر اس لیے بھی یاد ہے کہ سکول اور کالج میں ہر تشریح میں ڈھل جاتا تھا۔ آپ کی یومِ پیدائش کالج میں 9 نومبر 2017 میں اک پروگرام “یومِ اقبال” سے منائی تھی، اس کے بعد موقع نہ مل سکا- سرکار نے تعلیمی دفاتر بند رکھنے کا فیصلہ کیا یا شاید وہ ہر گھر میں “اقبال ڈے” منا نے کے پابند ہیں۔اور کالج، یونیورسٹی میں تعلیم کو ترجیح دی جاتی ہے، اساتذۂ اس حق میں نہیں کہ بچوں کے وقت کا ضیاع ہو۔سڑکیں احتجاجاً بند ہیں، نظام درہم برہم ہےاس لیے اقبال ڈے کے نام پر چھٹی رکھ دی گئی ۔
آزادی اک نعمت ہے اور یہ نعمت ایسٹ انڈیا کمپنی اپنے ساتھ ہی لے گئی ، اب آزادی بس ہمیں واقف ہے، نعمت نہیں۔ دین و مذہب سے رشتہ گہرا ہوتا چلا جا رہا ہے، اس وقت ہم مزید دریافت میں ہیں کہ اس کو گرہوں کی شکل دی جائے تاکہ ہر جماعت کی شناخت ہو سکے۔
باقی سب ٹھیک ہے، سب خوش ہیں جو نا خوش تھے وہ لکھتے ہیں وہ چلے گئے۔
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply