سوات ایک آغوشِ محبت : وقار سعید

بائیو سفئیر پر سب سے دلکش اور دلفریب مناظر میں سے ایک سوات بھی ہے۔ قدرت نے کرۂ ارض کے اس حصے میں عجیب سی کشش رکھی ہے۔ یہاں کے قدرتی نظارے انسان کو خیالوں کی دنیا میں گم کر دیتے ہیں۔ اور وہ سوچنے لگتا ہے۔ کہ جو قدرتی طور پر اس علاقے کو خوبصورتی کے بیش بہا عناصر سے نوازا ہے، تو جنت کتنا خوبصورت ہوگا۔

خوبصورتی کے ساتھ ساتھ یہ علاقہ شہر اور گاؤں کا کومبو ہے۔ ارد گرد کے ہمسایہ اضلاع کے قریب ترین شہر ہونے کی وجہ ہے کہ مینگورہ سے دیہاتی علاقوں تک ضروریات زندگی کے تمام اشیاء لے جائے جاتے ہیں۔

سوات میرے جیسے سینکڑوں طلباء کےلیے ایک آغوشِ محبت ہے۔ چونکہ ہمسایہ اضلاع میں تعلیمی سہولیات کم ہونے کی وجہ سے زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ان اضلاع کے طلباء سوات سے ضرور وابستہ ہوتے ہیں۔ لوگ دوسرے شہروں میں بھی پڑھتے ہیں۔ لیکن سوات میں گزارے گئے دن اور یہاں کی خوبصورتی یاد رہتی ہے۔ اور یہ اس لیے بھی کہ سوات علم کے پیاسوں کے لیے ہمیشہ اپنی باہیں پھیلائے رکھتا ہے۔

سوات میں اصول زندگی سیکھنے کے اعتراف میں ہر طالب علم کی طرف سے میں سوات کے باشندوں کی ترقی اور یہاں کی خوبصورتی میں مزید نکھار آنے کی دعا کرتا ہوں۔ ان سب کے باوجود تھوڑے بہت شکوے ان تعلیمی اداروں سے لوگوں کو ہے جو پرانے ریاست سوات کے وقت تمام اضلاع کو ذہن میں رکھ کے بنائے گئے کہ ان میں پرانے ریاست سوات میں شامل اضلاع کے طالب علموں کے لیے داخلہ لینے میں دقت ہوتی ہے وغیرہ، اس سلسلے میں تعلیمی اداروں سے درخواست ہےکہ وزیروں اور مشیروں کی باتوں میں آکر کس کو اس آغوشِ محبت سے گرنے نہ دیا جائے اور طالب علموں سمیت سب کو ان کا حق دے کر ثابت کریں کہ ہم ایک ہیں۔

سوات کے باشندوں کا علم و دانش اپنی جگہ ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے، لیکن ان کے سادگی بھی مثالی ہے کیونکہ معروف مصنف پرویز شاہین صاحب کا یہ سوال کہ ہمیں ۲۰۰۸ سے لیکر ۲۰۱۳ تک اتنی بے دردی سے کیوں مارا گیا؟ ہمیں کس جرم کی سزا دی گئی؟ ان سوالات کے جوابات اب جاکے مل رہے ہیں۔

دیر آئے درست آئے بالآخر ہمیں پتہ چل گیا کہ ہم کو ہمارے اندھے اعتماد کی سزا دی گئی۔ اب یہ بات خوش آئند ہے کہ پورے سوات کے لوگوں پر سیاسی اور سرکاری مدار یوں کی حقیقت عیاں ہو گئی۔ اب لوگ کس پر اندھا بھروسا نہیں کرینگے بلکہ اپنے انتخاب میں بھرپور سوچ سے کام لینگے۔ کیونکہ سیاسی تقاریر سے متاثر ہو کر اپنی قوم کو ایسے ہی کسی کے سپرد نہیں کرنا چاہئے بلکہ کارکردگی پر دھیان دینا چائے۔

وقت آگیا ہے کہ بحیثیت قوم اپنی مستقبل کے بارے میں سوچا جائے اور پہلے کی طرح کسی پر اندھا بھروسا نہ کریں پہلے ہماری مثال اس مالک مکان کی تھی کہ جس کا ۳ منزلہ گھر ہو اور وہ اس کے لئے ایسا محافظ رکھ لے جو کہے کہ ۲ منزلوں سمیت گھر کے سارے آکاونٹ بھی میرے حوالے کر دے اور آپ اپنا گزار ایک منزل میں کیجئے۔ یقیناً لگ رہا کہ اب ایسا نہیں ہوگا اب ہم اپنا گھر کسی کو یوں بگاڑنے نہیں دینگے۔ بقول حبیب جالب

اس ستم گرکی حقیقت ہم پہ ظاہر ہوگئی
ختم خوش فہمی کی منزل کاسفربھی ہوگیا۔

عزم و ہمت کے پیکر فیاض ظفر صاحب کی داد دینی ہوگی جن کی ہمت اور ادریس باچا کی گرجتے ہوئے نعروں اور پکار نے نہ صرف سوات بلکہ پورے ملاکنڈ کو جگا دیا۔ ہمیں فخر ہے کہ ہمارے ٹولے میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں کہ جو امن کے سفیر بن کر قوم کو جگا رہے ہیں۔

میرے ہاتھ میں قلم ہے، مرے ذہن میں اجالا
مجھے کیا دباسکے گا کوئی ظلمتوں کا پالا
مجھےفکر امن عالم،تجھےاپنی ذات کا غم
میں طلوع ہو رہا ہوں،تو غروب ہونےوالا

Leave a Reply