بینظیر ایسے اعزاز کی مالک ہیں جو اُن سے کوئی نہیں چھین سکتا ، یہ حقیقت ہے ایسی شخصيات صدیوں بعد پیدا ہوتی ہیں ۔
محترمہ بینظیر بھٹو 1953 کو کراچی میں پیدا ہوئیں، اپنی اس پہلی اولاد کو والد نے پنکی اور والدہ نے بےبی کا نام دیا لیکن ادارے کے ریکارڈ میں بچی کا نام بنظیر درج کیا گیا ،جسں کا نام جواں مرحومہ پھوپھی کے نام پے رکھا گیا . بینظیر کا شمار ممتاز سیاستدانوں میں ہوتا ہے .وہ ایک ممتاز سیاسی گھرانے کا چشم و چراغ تھیں،بینظیر نے پندرہ سال کی عمر میں او لیولز کا امتخان پاس کیا.اور پھر اعلی تعلیم کے لیے امریکہ چلی گئیں، ہاورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل ساںنس میں گریجویشن مکمل کی, پھر آکسفورڈ سے معاشیات میں ایم اے کیا اور اس کے بعد فارن آفیرز میں ایک سال کا ڈپلومہ کیا.بنظیر بھٹو کی پہلی زبان انگریزی تھی وہ اردو کم بولتی تھی ،بینظیر نے آکسفورڈ میں تعلیم کے دوران سیاست میں حصہ لیا.اُن کو خارجی امور میں دلچسپی تھی .کم عمری میں ہی بنظیر غیر ملکی سفارت کاروں اور غیر ملکی شخصیات کے سامنے آںی . بینظیر کو تعلیم مکمل کر کے وطن وآپس آئے ہوئے چند مہینے ہوئے تھے اُن کے والد کی حکو مت ختم کر دی گی . اور انہیں پابند سلاسل کر دیا گیا . 1979 میں بھٹو کو پھانسی دے دی گی بنظیر اپنے والد کو ہی اپنا آئیڈیل تصور کرتی تھیں . آپ نے اس تمام دورانیے میں پارٹی کو منظم رکھا .اسیری اور پھانسی تک کے عرصے میں محترمہ نے اپنے والد کو بچانے کی بھر پور کو شش کی وہ پارٹی کی چیئرپرسن مقرر ہوئیں .حکومتی دباؤ کے بعد بھی بینظیر نے ملک نہ چھوڑا.وہ پانچ سال تک ملک کی مختلف جیلوں اور اپنے گھر میں نظر بند رہیں .1988 میں پپلز پارٹی نے قومی اسمبلی میں سب سےزیادہ سیٹیں حاصل کی . یوں بینظیر ملکی تاریخ کی کم عمر وزیراعظم مقرر ہوئیں اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی دنیا کی پہلی وزیراعظم بننے کا اعزاز بھی حاصل کیا، وزیراعظم بنتے ہی پاکستان میں نعرہ بھی مقبول ہوا کہ چاروں صوبوں کی زنجیر بینظیر .
یہ بھی پڑھیں: بی بی بینظیربھٹو کی زندگی تصاویرکے آئینے میں
لیکن20ماہ بعد ان کی حکومت ختم کر دی گی .1993 میں بینظیر دوبارہ وزیراعظم بنی لیکن پھر ان کی حکو مت ختم کر دی گی . اپنی حکومت کے خاتمے کے کچھ عرصے بعد بنظیر نے جلا وطنی اختیار کی . بینظیر الیکشن میں حصہ لینے کے لیے 2007 میں دوبارہ وطن واپس آئیں 18 اکتوبر 2007 کا دن امید کا دن تھا .روٹی کپڑا اور مکان کا خواب دیکھنے والے بیدار ہو چکے تھے ،سڑکوں پر عوام کا جم غفیر تھا، یہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیٹی کی نہیں بھٹو ازم کی واپسی تھی امید کی واپسی تھی، روشنی کی واپسی تھی ہر طرف بھٹو ازم کی واپسی کی خوشی تھی تاریخ اپنے آپ کو دوہرا رہی تھی .ایک بار پھر آمریت اور جمہور کی جنگ ہونے والی تھی. وطن واپسی پر ان کے قافلے پر حملہ ہوا .موت بنظیر سے زندگی میں اتنی بار ہم کلام ہوچکی تھی کہ اب اُس کی آواز اُن کو چونکا نہیں پاتی تھی .پھر وہی ہوا جس کا خدشہ تھا. 27 دسعمبر 2007 کی خونی شام آپہنچی اور وہ اپنے چاہنے والوں سے ہمیشہ کے لیے جدا ہو گئیں.اور بھٹو کی آواز ہمیشہ کے لیےخاموش ہوگی،بنظیر ایک بلند پایہ حو صلہ والی خاتون تھی اُنہوں نے ساری زندگی مصیبتوں اور بے شمار مشکلات کا سامنا کیا . بینظیر 25 سال کی تھی جب ان کے والد کو پھانسی دے دی گی 1985 میں ان کے چھوٹے بھائی کو فرانس میں زہر دے کر قتل کر دیا گیا ،1996 میں جب وہ وزیراعظم تھی تو ان کے بھائی میر مرتضی کو کلفٹن کے علا قے میں قتل کیا گیا، ان کے شوہر 8 سال جیل میں رہے . بنظیر سے سیاسی افکار اور نظریات پر اختلاف تو کیا جا سکتا ہے لیکن ان کی قربانیوں سے نہیں . بینظیر جب بھی عوام سے مخاطب ہوتیں تو تقریر کرتی تو وہ درد ان کی آواز سے جھلکتا تھا وہ درد جو انہوں نے کم عمری سے ہی سہنا شروع کیا . 27 دسمبر کے تاریخی لیاقت باغ میں جلسے سے خطاب کر کے بینظیر واپس روانہ ہوںی تو دشمن طاق میں تھا کہ کب وہ بی بی کو نشانہ بنائے اس طرح دشمن اپنے ناپاک ارادوں میں کامیاب ہوا .
ڈھونڈوں گے اگر ملکوں ملکوں
ملنے کے نہیں نایاب ہم