میں دھوپ میں کھڑا انتظار کررہا تھا ۔ گرمی کی تمازت سے میرا چہرہ لال ہورہا تھا۔ اچانک ایک کار مجھے اپنی طرف آتی محسوس ہوئی۔ قریب پہنچنے پر بریک لگائی. کالے شیشوں کی وجہ سے میں اندر کا منظر نہیں دیکھ پارہا تھا۔ شیشہ نیچے اترا تو جمالی صاحب اندر بیٹھے نظر آئے۔ کیا شاندار شخصیت پائی تھی۔ عمر کوئی پچاس کے قریب لیکن کیا وجاہت۔ آنکھوں پر دھوپ کا چشمہ کم ہی ایسا کسی پر سجتا۔
میں نے آگے بڑھ کر سلام لیا۔ انہوں نے دوسری طرف سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔ میں تھوڑا ہچکچایا کہ اندر کے معطر ماحول میں میرے جسم سے اٹھنے والی پسینہ کی بو جمالیاتی ذوق پر اثرانداز ہوگی۔
شاید انہوں نے مجھے پڑھ لیا۔ ہولے سے مسکرائے ، اور کہنے لگے باڈی اسپرے ہے۔ آجاؤ اور ائیر فریشنر بھی۔ میں دوسرے گیٹ سے اندر آکر بیٹھ گیا۔ باڈی اسپرے نے میرے پسینے کی بدبو کو پی لیا اور ائیر فریشنر نے گویا ماحول کی کدورت کو ختم کردیا۔ جمالی صاحب نے ڈرائیور کو اشارہ کیا اور اس نے گاڑی چلادی۔ کار کے اندر کے ماحول نے باہر گرم موسم کی شدت اور تمازت کو اڑن چھو کردیا۔ میں نے ہاتھ میں پکڑا لفافہ جمالی صاحب کے حوالے کیا۔ جمالی صاحب نے مطلوبہ رقم گن کر گاڑی کے کنسول میں رکھ لی۔۔
جمالی صاحب تھانے میں ایس ایچ او تھے۔ میرا تعلق لوئر مڈل کلاس فیملی سے تھا۔ بڑا بھائی برے دوستوں کی صحبت میں اٹھنے بیٹھنے لگا تھا۔ ہمیں اندازہ نا ہوسکا۔ وہ دوستوں کے ساتھ مل کر اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہوگیا۔ اور آخر کار ایک دن پولیس کے ہتھے چڑھ گیا۔ یہ شکر تھا کہ اس کام میں ابھی نیا نیا داخل ہوا تھا۔ اس کا دوست تگڑی فیملی سے تھا اور وہ یہ وارداتیں تھرل کے طور پر کرتا تھا۔ اس کے والد نے پیسے دے دلا کر اسے چھڑوالیا۔ ہم لوئر مڈل کلاس لوگ تھے۔ تاہم عزت بچانے کی خاطر جمالی صاحب کے پاؤں تک پکڑے۔ منت سماجت کی۔ بہت مشکل سے تین لاکھ پر معاملہ طے پایا۔ ابا نے اپنی موٹرسائیکل بیچ، کچھ زیور اماں کا، میری نکلی کمیٹی بھی کام آگئی۔ سو مل ملا کر تین لاکھ کا بندوبست ہوگیا۔ کسی سے مدد بھی نہیں مانگ سکتے تھے کہ بھید نا کھل جائے۔
پیسے پہنچانے کی ذمہ داری میرے سپرد کی گئی۔ میں نے بہت احتیاط سے ان پیسوں کو جمالی صاحب تک پہنچایا۔ پیسے وصول کرنے کے بعد جمالی صاحب نے مجھے میرے گھر کے قریب اتار دیا۔ میری آنکھوں میں ابھرتے سوال کو ایک دفعہ اس نے پھر سے پڑھا۔ اور کہنے لگے کہ پریشان مت ہو۔ رات تک بھائی گھر پہنچ جائے گا۔ شریف لوگ ہو تو اس لئے موقع دے دیا اگلی دفعہ پکڑا گیا تو ایسی دفعات لگاؤں گا کہ پانچ سال سے پہلے باہر نہیں آئے گا۔ میں نے بڑی عاجزی سے یقین دلایا کہ اب آپ کو شکایت کا موقع نہیں ملے گا۔ ویسے بھی جو پھینٹی بھائی کو پڑھ چکی اس کے بعد اس نے پکی توبہ کرلی۔ اماں بہت دعائیں دے رہی تھی آپ کو ۔
جمالی صاحب مسکرائے اور کہنے لگے کہ ماں سب کی سانجھی لہذا سلام کہنا۔ جمالی صاحب نے اشارہ کیا اور ڈرائیور نے تیزی سے کار آگے کو بڑھادی۔
رات کو دس بجے ایک پولیس والا سادہ کپڑوں میں بھائی کو گھر چھوڑ گیا ۔ اماں نے بلائیں لی۔ ابا غصے سے بھرے بیٹھے تھے۔ قریب تھا کہ ابا بھائی کو مارتے لیکن اس نے روتے ہوئے ابا کے پاؤں پکڑ لئے۔ سب کے آنسو نکل آئے۔ چند دن بعد رمضان شروع ہونے والا تھا۔ تین لاکھ روپے کی ادائیگی کی وجہ سے گھر کے بجٹ کا توازن خراب ہوچکا تھا۔ میں نے لیپ ٹاپ خریدنے کے لئے کمیٹی ڈالی تھی جو اس واقعے کی نظر ہوگئی۔ ابا بچارے دفتر بس پر جانے لگے۔ عید کے کپڑے بھی نا سلواسکے۔ اماں دکھی تھی تو بھائی پشیمان ۔ ابا کہنے لگے کہ جمالی کتنے پیسے کماتا ہے۔ اسے کیا پتا کہ اس کا پیٹ بھرنے کے لئے ہم سب نے اپنے پیٹ خالی کردیئے۔
میں نے ایک نوکری کے لئے درخواست دی تھی جہاں سے مجھے انٹرویو کے لئے فون آیا اور ساتھ ہی کریکٹر سرٹیفکیٹ متعلقہ تھانے سے ساتھ لانے کا کہا۔ ابا کہنے لگے کہ جمالی صاحب کو دیئے پیسے ابھی اس کے پیٹ میں نہیں گئے ہوں گے تو اسے ہم یاد ہوں گے۔ ان سے کہ کر تو سرٹیفکیٹ لے لینا۔ امید ہے کہ وہ کام کروادے گا۔
دسواں روزہ تھا میں تھانے پہنچا تو پتہ چلا کہ جمالی صاحب چھٹیوں پر ہیں۔ میں نے ان کے موبائل پر کال ملائی تو نمبر بند تھا۔ میں نے ایک سپاہی سے پوچھا کہ ان کا نمبر بھی بند ہے۔ تو وہ کہنے لگا کہ وہ پاکستان میں نہیں ہیں۔ وہ ہرسال رمضان کے مہینے میں عمرے پر جاتے ہیں۔