حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت صہیب ابن سنان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک ساتھ ایمان لائے تھے ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضرت ارقم بن ابی ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازہ پر دیکھ کر پوچھا ” آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کس ارادہ سے آئے ہیں ۔ تو وہ بولے “پہلے آپ اپنا ارادہ بیان کریں ۔ تو میں نے ان سے کہا:” حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے مل کر ان کی کچھ باتیں سننا چاہتا ہوں” ۔
تو حضرت صہیب رضی اللہ تعالیٰ عنہ بولے “میرا مقصد بھی یہی ہے” غرض دونوں ایک ساتھ حضرت ارقم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے گھر میں داخل ہوئے اور ساقیِ اسلام صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم کے ایک ہی جام نے دونوں کو نشہ توحید سے مخمور کردیا ۔ اور یہ دونوں حضرات ایک ساتھ اسلام لے آئے ۔ حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ یا کچھ آگے پیچھے ان کے والدین بھی مسلمان ہوئے ۔
صحیح بخاری کی ایک روایت ہے کہ حضرت عماربن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب ایمان لائے تو انہوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے علاوہ صرف پانچ غلام اوردو عورتوں کو نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک کے ساتھ دیکھا ۔ یہ وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنے اسلام کو ظاہر کردیا ہوا تھا ورنہ صحیح روایت کی بنا پر اس وقت تک 30 سے زائد اصحاب دائرہ اسلام میں داخل ہوچکے تھے ۔
حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ گو ایک بے یار و مددگار غریب الوطن تھے ۔ انہیں دنیاوی وجاہت و طاقت بھی حاصل نہ تھی اور سب سے بڑھ کر ان کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت تک بنی مخزوم کی غلامی سے آزاد نہیں ہوئی تھیں ۔ مشرکین مکہ نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اور ان کے خاندان کو ناچار و مجبور دیکھ کر سب سے زیادہ مشق ستم انہی کو بنالیا ، ان کو طرح طرح کی اذیتیں دیتے ، ٹھیک دوپہر کے وقت تپتی ہوئی ریت میں لٹا کر دہکتے ہوئے انگاروں سے جلاتے اورگھنٹوں پانی میں غوطے دیتے رہتے لیکن مشرکین مکہ ان تمام سختیوں کے باوجود بھی ان کو اسلام سے برگشتہ نہ کر سکے ۔
حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی والدہ حضرت سمیہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ابو جہل نے نہایت وحشیانہ طریقے سے اپنا نیزہ مار کر شہید کر دیا تھا ۔ چنانچہ تاریخ اسلام کی یہ پہلی شہادت تھی، جو استقلال واستقامت کے ساتھ اللہ کی راہ میں واقع ہوئی تھی ۔ ان کے والد حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان کے بھائی حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی اسی گرداب اذیت میں شہید ہوئے ۔
ایک دفعہ مشرکین نے حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو دہکتے ہوئے انگاروں پر لٹا دیا ۔ نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم اس طرف سے گذرے تو ان کے سر پر اپنا دست مبارک پھیر کر فرمایا “اے آگ تو ابراہیم علیہ السلام کی طرح عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر بھی ٹھنڈی ہوجا” اسی طرح جب ان کے گھر کی طرف سے گذرتے اور خاندانِ یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مبتلائے مصیبت دیکھتے تو فرماتے” اے آلِ عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ تمہیں بشارت ہو جنت تمہاری منتظر ہے”۔
ایک مرتبہ حضرت یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی کریم خاتم النبیین حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ واصحابہ وبارک وسلم سے گردشِ زمانہ کی شکایت کی ۔ تو ارشاد ہوا کہ ” صبرکرو ۔ پھر دعا فرمائی، اے اللہ آلِ یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بخش دے ۔
یہ بھی پڑھیں
حضرت عمار بن یاسر رضی اللہ تعالیٰ عنہ
“حضرت عمار رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قبول اسلام” ایک تبصرہ