مسجد وزیر خان

مسجد وزیر خان شہر لاہور، اندرون دہلی دروازے میں واقع ہے. اس مسجد کی بنیاد حکیم شیخ علم الدین انصاری نے رکھی جو وزیر خان کے نام سے مشہور تھے. وزیر خان کا تعلق جھنگ، موجودہ چنیوٹ کے قریب ایک علاقے سے تھا. طب کے علاوہ علم و ادب، فلسفہ میں بھی وزیرخان کو عبور حاصل تھا. ہر سو وہ ایک حاذق طبیب کے طور پر جانے جاتے تھے. اپنے اسی فن کو لے کر وزیر خان آگرہ گئے جہاں انکی رسائی مغلیہ دربار میں ہوئی. ملکہ نور جہاں بیمار پڑیں تو انکی صحت سنبھلنے کا نام ہی نہ لیتی تھی. وزیر خان کو علاج کا موقع ملا تو چند دنوں میں ہی ملکہ کی صحت بہتری کی طرف آگئی. صلے میں شاہی دربار سے خلعت، ڈھیروں انعام و اکرام، اور عہدے نصیب ہوئے.


مسجد وزیر خان کی یہ تصویر ولیم ہنری جیکسن نے 1895ء میں کھینچی

شاہجہان کے دور میں جب وہ لاہور آیا تو اس نے لاہور کی گورنری وزیرخان کو دے دی. سن 1634ء کے آس پاس وزیرخان نے مسجد کی تعمیر شروع کروائی جس کی تکمیل سات سال بعد ہوئی. مسجد اپنے نہایت خوبصورت طرز تعمیر اور نقاشی کیلیے معروف ہے. اس طرف کی مرصع کاری لاہور سمیت دنیا کی کسی عمارت میں کم ہی نظر آتی ہے. ابتدائی دنوں میں یہ لاہور کی سب سے حسین عمارت کہلاتی تھی. اسے لاہور کے رخسار کا تل بھی کہا جاتا ہے. معمار اس عمارت کے حسن کو دیکھ کر دنگ رہ جاتے ہیں. مسجد کے دروازے پر خوشنویسی کے وہ نمونے ہیں کہ آج بھی ان کو دیکھ کر خطاط خوشخطی کے سبق لیتے ہیںِ‌. انگریز دور میں میو کالج آف آرٹس کے طلباء کو نمونے کے دور پر اس مسجد میں پڑھانے کیلیے لایا جاتا تھا.

مسجد وزیر خان کے صدر دروازے اور کھڑکی کا ایک عکس : فوٹوگرافر عبدالمطلب 12

دہلی دروازے سے اندر داخل ہوکر شاہی گزرگاہ میں چلتے جائیں تو قریب 300 میٹر کے بعد مسجد وزیرخان کی عالیشان عمارت نظر آنے لگتی ہے. مسجد سے کچھ پہلے وزیرخان چوک واقع ہے جہاں‌سے لاہور کے تاریخی علاقوں‌ کی طرف چاروں سمتوں سے راستے نکلتے ہیں. ان دنوں اس چوک کے چاروں طرف گنجان آبادی ہوچکی ہے جس سے مسجد کا حسن دب کر رہ گیا ہے. مسجد کے صحن میں وضو کیلیے ایک حوض ہوتا تھا جو اب بھی موجود ہے. مسجد کے اطراف میں 32 چھوٹے چھوٹے حجرے بنے ہوئے ہیں. مسجد میں سنگ سرخ اور سنگ مرمر کا استعمال اس کے حسن کو ساڑھے چار صدیاں بعد بھی زندہ رکھے ہوئے ہے. مہاراجہ رنجیت سنگھ نے مسلمانوں کی سبھی عمارات کو نقصان پہنچایا تھا اور قیمتی سامان کے ساتھ ساتھ سنگ مر مر تک اکھاڑ لیا تھا لیکن مسجد وزیر خان اس کی دست برد سے محفوظ رہی تھی. اس کی وجہ یہ مشہور ہے کہ وزیر خان کے سکھوں کے گرو ارجن سنگھ سے نیازمندانہ تعلقات تھے. لہذا جب رنجیت سنگھ دہلی دروازے سے اندر داخل ہوا تو اس نے مسجد وزیر خان میں حاضری دی اور پانچ سو روپے کی خطیر رقم نذرانہ کے طور پر پیش کی.

مسجد کا کل رقبہ عرض میں 279.5 فٹ (85.1916 میٹر) اور طول 159 فٹ (48.4632 میٹر)ہے۔صحن مسجد کا رقبہ 148.5 فٹ 3 انچ طول اور 117 فٹ عرض ہے۔مسجد کے صحن کے مرکز میں واقع حوض کا طول 35 فٹ 3 انچ ہے اور عرض 35 فٹ 9 انچ ہے جبکہ صحن کا کل رقبہ 1260.1875 مربع فٹ (181467 مربع انچ) ہے۔مسجد کے چار مینار ہیں جن کی بلندی 107 فٹ (32.6136 میٹر) ہے۔مسجد کے کل گنبد 6 ہیں۔ مسجد کے اندرونی ڈیوڑھی نما عمارت پر واقع ایک گنبد ہے اور جبکہ صحنِ خاص والی عمارت پر دو میناروں کے ہمراہ 5 گنبد ہیں۔ تمام گنبدوں کی بلندی بیرونی جانب سے 6.4008 میٹر (21 فٹ)، اندرونی جانب سے 9.7536 میٹر (32 فٹ) ہے۔ گنبدوں کا قطر بیرونی جانب سے 5.7912 میٹر (19 فٹ) اور اندرونی جانب سے قطر 7.0104 میٹر (23 فٹ) ہے۔

Leave a Reply