ایک مرتبہ دو آدمی چوری کے الزام میں گرفتار ہوئے۔ لوگوں کو شک تھا کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک چور ہے لیکن چور کون ہے ؟ اس کا فیصلہ لوگ نہ کر سکیں۔ لوگوں نے دونوں آدمیوں کو قاضی کے سامنے پیش کر دیا۔ تاکہ قاضی ان دونوں اشخاص میں سے چور کا تعین کر سکے ۔ قاضی نے جب ان دونوں چوروں کو دیکھا تو قاضی نے پانی سے بھرا ہوا پیالہ منگوا لیا ۔
قاضی پانی پیتا جارہا تھا اور چوروں کو گھورتا جارہا تھا۔ پانی پیتے پیتے اچانک قاضی کے ہاتھ سے پیالہ گر گیا ۔ پیالہ فرش پر گرا تو پوری عدالت پیالے کے شور سے گونج اٹھی۔ قاضی اس دوران ان دونوں آدمیوں کی طرف دیکھتا جا رہا تھا ۔ جب پیالے کا شور ختم ہوا تو قاضی نے ایک شخص کی طرف اشارہ کر کے لوگوں سے کہا کہ اس کو چھوڑ دیں اور دوسرے کے خلاف چوری کا مقدمہ قائم کریں ۔ وہاں موجود لوگ اس عجیب و غریب انصاف پر حیران تھے ۔
انہوں نے قاضی سے پوچھا ! آپ نے صرف چہرہ دیکھ کر کیسے پہچان لیا کہ یہ چور ہے ؟ قاضی نے مسکرا کر جواب دیا میں نے پانی کا پیالہ جان بوجھ کر زمین پر گرایا تھا۔ میرا پیالہ جب زمین پر گرا اور عدالت میں شور برپا ہوا تو بے گناہ شخص اس شور پر گھبرا گیا تھا ۔ میں نے اس کے چہرے پر خوف اور گھبراہٹ دیکھی تھی ۔ جبکہ چور اسی طرح وہاں کھڑا رہا ۔ قاضی کا کہنا تھا کہ چور کا دل ہمیشہ مضبوط ہوتا ہے ۔ چور کھٹکے سے گھبراتا نہیں ہے ۔ یہ شور یا کھٹکے کے عالم میں اپنے قدموں پر کھڑا رہتا ہے۔ تاکہ حالات کا جا ئزہ لے اور جب شور ختم ہوجائے تو یہ دوبارہ اپنے کام پر لگ جاتا ہے ۔
جبکہ عام شخص ہمیشہ کھٹکے سے گھبرا جاتا ہے اور جو گھبرا جائے وہ چوری کر نہیں سکتا۔ چناچہ میں نے گھبرا نے والے کو چھوڑ دیا ہے کیونکہ وہ چور نہیں تھا اور ڈٹے رہنے والے بے خوف شخص کو گرفتا ر کروادیا ہے کیونکہ یہی چور ہے ۔ قاضی کی بات بعد ازاں درست ثابت ہو گئی ۔ اور چور سے واقعی چوری کا مال بھی برآمد ہوگیا۔
یہ بھی پڑھیں
وزیر خزانہ نے بادشاہ کو مشورہ دیا کہ