جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا جڑانوالہ کا دورہ

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے جڑانوالہ کی مسیحی برادری پر ہونے والے سانحہ کی تعزیت پر جانے کے حوالے سے خاصی تنقید ہو رہی ہے۔
اس دورے کو مثبت انداز سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور منفی انداز میں بھی اس پر تنقید کی جا سکتی ہے۔ دونوں طرف کے دلائل اپنے اپنے انداز میں وزنی ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ ایسے واقعات کی بیخ کنی اور تدارک کے لئے کیا موثر اقدامات اٹھائے جا سکتے ہیں اور سماج میں امن و آشتی کسی طرح قائم کی جاسکتی ہے بلخصوص اس کے جو پہلو آپ کے شعبہ سے وابستہ ہوں ان پر کس طرح کام کرکے اجتماعی انصاف اور معاشرتی امن کے اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں کو دیکھا جاتا ہے۔ ایسے حالات میں اس شخص کے منصب اور شعبہ سے متعلق سوالات جائز و مناسب ہوتے ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ کیونکہ شعبہ انصاف سے وابستہ ہیں اور اگلے ماہ چیف جسٹس آف پاکستان کے منصب پر متمکن ہونے جا رہے ہیں۔ اس لئے اس طرح کے تشدد کے واقعات کے تدارک پر کی جانے والی قانون سازی اور اس قانون سازی کا منطقی اور تحقیقاتی انداز میں جائزہ لے کر حکومت کو ایسی قانون سازی پر نظرثانی کی ہدایت جاری کرنا اور سماج کی اجتماعی ترقی، امن کی راہ میں حائل قانون سازی کو منسوخ کرانا اور مقننہ کو سماجی، سیاسی اور عوام کے معاشی انصاف اور انسانی حقوق کے حوالے سے آگاہ رکھنا عدلیہ کے کار منصبی ہوتے ہیں۔
یہاں پچھلے کئی سالوں سے سپریم کورٹ کے سوموٹو اختیار پر سیاست کی جا رہی ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس سیاست میں عدلیہ بھی شامل ہے۔لیکن توہین مذہب، توہین رسالت پر آج تک جتنے کیسز عدالتوں میں آئے ہیں، اکثریت کیسز میں لوگوں نے اپنی ذاتی دشمنیوں اور جائیدادوں کے معاملات کے حل کے لئے ان قوانین کو استعمال کیا ہے۔ عدلیہ نے اس حوالے سے مقننہ کو آگاہ ضرور کیا لیکن اس بے دلی سے کہ یہ معاملہ بلکل ہی بے توجہی کا شکار ہو گیا ہے۔ یہ ملک کی عدلیہ کا ہی کام ہے کہ وہ مقننہ کو ایسی قانون سازی کے معاشرے پر پڑنے والے مضر اثرات کے بارے میں آگاہ رکھے اور ایسے قوانین اور قواعد و ضوابط میں موثر ترامیم کی تجاویز دے۔
ایک اور مسئلہ توہین کے کیسز کا بے جا التوا ہے۔ سیشن کورٹس میں تو ایسے کیسز میں پولیس انویسٹیگیشن سے لے کر شہادت تک کے تمام مراحل میں قانون کی دھجیاں بکھیر دی جاتی ہیں۔ ایسے کیسز کی سماعت کرنے والے ججز کی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے۔ لہذا اس مرحلے پر تو انصاف کا قتل بھی آسانی سے ہو جاتا ہے اور تاخیری حربے بھی کھلے عام استعمال ہوتے ہیں۔ اس میں کس حد تک ہائی کورٹ کے قواعد میں ترامیم سے بہتری لائی جاسکتی ہے یہ عدلیہ ہی کا شعبہ ہے۔ لہذا عدلیہ کو آنے والے دنوں میں اس پر فوکس کرنا ہوگا۔
بہت سے کیسز میں توہین کے الزام میں گرفتار ملزمان اپنی مجوزہ سزا سے زیادہ عرصہ جیل میں گزار چکے ہیں۔ عدلیہ اس پر مجرمانہ غفلت کا شکار ہے۔ یہ بھی ایک پہلو ہے جس پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے۔
تاخیر کے حوالے سے پروفیسر جنید حفیظ کا کیس ایک کلاسک مثال ہے۔ اول تو یہ کیس عرصہ دراز تک فکس ہی نہیں ہوا اور جب بھی فکس ہو تو پھر یہ دیگر کیسز کے رش کی وجہ سے التوا کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ایسے ملزمان کا سلاخوں کے پیچھے رہنا ہی بہتر ہے کیونکہ اگر اس کی رہائی ہوئی تو مشعل عوام ہی اسے مار دیں گے۔ یہ تاثر ریاست اور عدلیہ کی کمزوری کا عکاس ہے۔ عدلیہ اس تاثر کو زائل کرنے میں کس طرح اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ اس منصب پر فائز آدمی کی ترجیحات پر مبنی ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: جڑانوالہ میں قرآن کی مبینہ بے حرمتی: مشتعل افراد نے 4 گرجا گھروں، مسیحی برادری کے درجنوں مکان جلا دئے

نصاب تعلیم میں دیگر مذاہب کے خلاف نفرت اور تضحیک کی کافی مثالیں موجود ہیں، یہ بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے، عدلیہ کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ بلاامتیاز رنگ و نسل اور مذہب پاکستان کے شہریوں کے ان بنیادی حقوق کا تحفظ کرے اور اسمیں بہتری کے حوالے سے حکومت کو آئین کی پاسداری پر مجبور کرے۔ اگر عدلیہ اس طرف اپنی توجہ مرکوز کرے تو سماج میں نفرتوں کو کم کیا جا سکتا ہے اور اس قسم کے واقعات کا کس حد تک تدارک بھی کیا جا سکتا ہے۔
ایک طرف مذہبی منافرت اور شدت پسندی ہے دوسری طرف حکومت توہین صحابہ بل پاس کرکے قوم میں مذید مذہبی شدت پرستی کو ہوا دے رہی ہے۔ عدالت عظمیٰ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں مذکورہ بالا معاملات کو کس طرح دیکھتی ہے اور اس نفرت اور دہشت گردی کی بیخ کنی میں کیا کردار ادا کرتی ہے اس کا فیصلہ آنے والا وقت کرے گا بصورت دیگر قاضی فائز عیسیٰ بھی تاریخ کی ردی کی ٹوکری کا حصہ بنیں گے۔
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply