سیاسی المیہ : جمشید علوی

ظلم ،جبر اور استحصال کے وقت سچ لکھنا بہت ہی کھٹن عمل بن جاتا ہے ۔عوام کو اس سے کوئی غرض نہیں رہی ہوتی کون گرفتار ہو رہا اور کون کون کر رہا ہے بلکہ عوام کا مفاد اس کی معاشیات سے جڑا ہوتا ہے ۔اب عوام کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ یہ ایک دوسرے خوف زد ہ کرتے ہیں ایک دوسرے کو خریدتے ہیں تو اس کے پیچھے بھی اسی طبقہ کا مفاد چھپا ہوتا ہے ۔نیازی کی گرفتاری اس وجہ سے نہیں کی گئی کہ اس نے معاشیات کا بیڑا غرق کر دیا تھا بلکہ پی ڈی ایم کی حکومت اس کے خلاف اس لیے اٹھی تھی کہ معاشیات اور مہنگائی بڑھ رہی ہے لہذا اس کو کم کرنا ہے لیکن خود پی ڈی ایم کی حکومت نے تابڑ توڑ حملے عوامی مفادات پر کیے ہیں ۔مہنگائی کو کم تو کجا اس کو کیی گنا بڑھا دیا ۔کیوں کہ ان کی سوچ کبھی عوامی رہی ہی نہیں اور یہ عوام سے ہیں بھی نہیں ۔یہ خود کو عوامی نمائندہ کہتے ہیں لیکن اصل میں یہ ایک طبقہ ہے جو لوٹ مار اور انتقامی سیاست پر یقین رکھتا ہے اپنے انتقام اور چند رہنماؤں کی آنا کی تسکین کی خاطر پورا ایک سال صرف کر دیا گیا ۔نیازی پروجیکٹ کو جب لانچ کیا جا رہا تھا تو اس وقت بھی سارا سکرپٹ اسی طرح لکھا گیا تھا جس طرح آج ہو رہا ہے ۔
نیازی اور موجودہ سیاسی جماعتوں میں کوئی فرق نہیں یہ سب متفق ہیں نچلی کلاس کو جتنا رگڑا جائے اتنا ہی بہتر ہے عوام نہ نواز کی گرفتاری پر نکلی تھی نہ خان کی گرفتاری پر نکلی ہے ۔کیوں کہ ان جماعتوں کی جڑیں ،جس کو عوام میں ہونا چاہیے تھا وہ کھوکھلی ہو چکی ہیں ۔انتخابات ہوں یا نہ ہوں اس سے عوام پر کوئی فرق نہیں پڑتا کیوں کہ الیکٹ اسی طبقہ نے ہونا ہے بلکہ ایک تجویز ہے کہ انتخابات پر عوام کا جو پیسہ خرچہ جاتا ہے وہ پیسہ یہ خود میں بانٹ کر اپس میں کونسنسسز کی بنیاد پر حکومت بنا لیں مرکز میں بھی صوبوں میں بھی ۔ان سیاسی جماعتوں کے رہنما پارٹی کو ڈکٹیٹر شپ سے چلاتے ہیں ۔فیصلے ان کی کور کمیٹی میں نہیں ہوتے بلکہ شخصیت کے ذہن میں ہوتے ہیں ۔

خان پر یہ الزام کہ اس نے سیاست میں گالی گلوچ کا کلچر متعارف کروایا ہے غلط ہے یہ پہلے بھی موجود تھا کس طرح نون لیگ اور پی پی پی ایک دوسرے کی کردار کشی کرتی رہی ہیں ۔خان پر یہ الزام کہ وہ جماعت کے فیصلے اپنی مرضی سے کرتا ہے درست ہے لیکن یہ آدھا درست ہے ، مکمل درست یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں کے رہنما ایسا کرتے رہے ہیں ۔خان پر پرو اسٹبلشمنٹ کا الزام بھی درست ہے لیکن کون ہے جو اسٹبلشمنٹ کی ایما کے بغیر حکومت میں رہا ہے ۔

خان سیاسی جماعتوں سے بات چیت کا قائل نہیں تھا اگر چہ گرفتاری سے قبل وہ بات کرنا چاہتا تھا لیکن دراصل وہ اسی طاقت سے بات کرنا چاہ رہا تھا جو ایسے پروجکٹ لانچ کرتے ہیں جس میں وہ درست تھا لیکن کیوں کہ خان احمق بھی تھا اس کو وہ راستہ معلوم نہیں تھا جس پر چل کر وہ اس طاقت سے بات کر سکتا تھا ۔براہ راست ممکن نہیں تھا اور وسیلہ خان کو پسند نہیں تھا لہذا نتیجہ جیل ہی تھا ۔اب یہ بھی احمقانہ سوچ ہے کہ جیل جاتے ہی انسان ہیرو بن جاتا ہے بلکہ جیل جانے کا مقصد یہ طے کرتا ہے کہ جیل کیوں گیا یا جیل کو کس مقصد کی خاطر قبول کیا گیا ۔اس سے پہلے بہت سی سیاسی شخصیات جیل یاترا پر گیی تھیں لیکن وہ سب نیلسن مینڈیلا جعلی ثابت ہوے کیوں کہ ان کا جیل جانے کا مقصد کوئی نظریاتی نہیں تھا، ذاتی تھا جو انتقامی سیاست کی بھینٹ چڑھے ۔

جب تک عوام خود کی مجموعی آنا ،حقوق ،طاقت اور استحصال کرنے والے طبقہ کو سمجھ نہیں جاتی کہ یہ طبقہ اپنے مفادات میں کس طرح متحد ہو جاتا ہے اس وقت تک یہ سیاسی ڈرامہ چلتا رہے گا ،مہنگائی بڑھتی جائے گی ۔یہ طبقہ جو اقتدار کو چمٹ چکا ہے اس کے خلاف کس طرح شعوری جدو جہد کرنی ہے ،اس وقت تک یہی عمل دوہرایا جاتا رہے گا ۔اگر چہ ملک میں اس وقت کوئی عوامی پارٹی موجود نہیں انقلابی تو کجا ،لیکن یہ عمل بھی ان حالات کے تحت خود اپنی موت بھی بن سکتا ہے لیکن ایسی صورت میں کہ کوئی انقلابی پارٹی یا اس کا کوئی ہراول دستہ ان حالات کو کنٹرول کرنے کے لیے موجود نہ ہوا تو افراتفری کی صورت حال میں وہی موت شدہ طبقہ زندہ ہو کر ان حالات کو پھر کنٹرول کر سکتا ہے ۔
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply