انقلاب یا بغاوت
1941 میں کیمونسٹوں نے پارٹی کی از سرے نو تشکیل کی ۔پارٹی کی تیسری کانگریس جس میں پارٹی کا نام حزب تودہ تجویز کیا گیا ۔اور علان کیا گیا کہ یہ کسان مزدور،دستکاروں اور جمہورییت پسند دانشوروں کی جماعت ہے جس کا مقصد استحصال سے پاک ایک آزاد اور جمہوری معاشرہ قائم کرنا ہے ۔
دوسری جنگ عظیم نے فاشسٹ حکومتوں کی کمر توڑ دی اور انہوں نے اپنا ادھورا خواب” استحصال” کو امریکا کی جھولی میں ڈال دیا ۔اب یہ استحصالی کردار امریکا کو دے دیا گیا ۔اس دوران پھر تودہ پارٹی پر پابندی عائد کر دی گیی اور ان کے رہنماؤں کو بے دردی سے قتل کر دیا گیا یا پھانسی دی گی یا جیل میں قید کر دیا گیا ۔
ایک طرف اس پارٹی پر اندرونی بیرونی دباؤ تھا دوسری جانب سرمایہ دار طبقہ جو شاہ کے خلاف تھا لیکن سوشل ازم کے حق میں نہیں تھا وہ شامل ہو گیا تھا ۔درمیانہ طبقہ اور اوپری طبقات نے اس تحریک کو ملا کی گود میں ڈال دیا ۔محنت کش طبقہ جو شاہ کے دور حکومت میں بدحالی اوراستحصال کا شکار تھا بعد بھی میں اس کی مشکل میں کمی نہ آ سکی ۔
شاہ کی غلط حکمت عملی نے تحریک میں ایک جوش پھونک دیا ایک طرف وہ تیل پر انحصار کر رہا تھا اور اربوں ڈالر کما رہا تھا دوسری طرف وہ اپنے سامراجی آقاؤں کو یہ بارور کروا رہا تھا کہ ایران کو ایک ترقی آفتا ملک بنانے کی کوشش میں مصروف ہے۔ جب کہ شاہ خود اپنے سرمایہ میں اضافہ کرتا جا رہا تھا دوسری طرف غیر ملکی کمپنیوں کو لوٹ مار کی کھلی اجازت دے رکھی تھی ۔شاہ آخری لمحات تک سامراج سے توقع کر رہا تھا کہ وہ اس کے خلاف کسی بھی تحریک کو کچلنے میں اس کی مدد کو آیئں گے ۔لیکن سامراجی ویت نام کی جنگ میں بدنامی کے بعد کسی بھی براہ راست جنگی عزائم سے خود کو دور رکھنا چاہ رہا تھا ۔لیکن عین وقت پر شاہ کو یہی پیغام دیا گیا کہ وہ ملک چھوڑ کر فرار ہو جائے۔اس سے شاہ بوکھلاہٹ میں سامراجی کردار کو بھی عیاں کر کے مقامی عوام کی ہمدردی حاصل کرنا چاہ رہا تھا ۔جو بے سود ثابت ہوئی ۔جب قم کے مجتہد کو ملک بدر کر دیا گیا وہ پیرس کے مضافات میں مقیم ہو گئے اور وہیں سے عوام کو شاہ کے خلاف ہدایات دیتے رہے ۔
لفٹ کی کیمونسٹ پارٹی نے امام خمینی کے ساتھ گٹھ جوڑ کر لیا جو خفیہ تھا ۔اس بنیاد پر ایران میں جمہوریت اور انسانی حقوق کا احیا کیا جائے گا ۔ایسی کوشش ، کیمونسٹ پارٹی نے اپنی سیاست کا خاتمہ کر لیا اور پوری تحریک امام خمینی نے ہائی جیک کر لی ۔
امام خمینی کے خلاف جب شاہ نے پراپگنڈا کیا کہ خمینی صاحب سامراجی ممالک سے مل چکا ہے تو عوام مشتعل ہو گیی ایک دوسری وجہ بھی تھی امام خمینی صاحب کے بیٹے ایک کار حادثہ میں جاں بحق ہو گئے تھے عوام کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے رضا شاہ اور امریکی سامراجی ہاتھ ہے ۔
یہ شاہ کے تابوت میں آخری کیل تھا جو ٹھک گیا۔شاہ کے خلاف مزاحمت تیز ہو گئی اور شاہ نے اس کو طاقت سے روکنے بھرپور کوشش کی ہزاروں کی تعداد میں لوگوں پر گولیاں برسائی گیئں جس ہزاروں لوگ شہید ہو گئے ۔
اس مزاحمت تیزی محرم کے ایام میں در آی جب شاہ نے محرم کے جلسوں پر پابندی عائد کر دی اور امام خمینی نے اس کو حسین اور یزید کی جنگ سے تعبیر کرنا شروع کر دیا ۔جو شاہ کی فوج لوگوں کا قتل عام کر رہی تھی اس کو لشکر یزید سے تعبیر کیا گیا ۔ان حالات کو دیکھ سامراج نے بھی شاہ کو انتباہ کیا کہ اگر اس محرم میں بادشاہت بچ گئی تو شائد چند سال مزید نکال سکے گی لیکن ایسا ممکن نہ ہو سکا۔
تحریر جاری ہے !
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں