انقلاب ایران ( آخری قسط) : جمشید علوی

انقلاب ایران /بغاوت
امام خمینی 1979 فروری ایران پہنچے ۔ایران کا سیاسی و سماجی ڈھانچہ تہس نہس جو چکا تھا ۔ہر طرف لا قانونیت تھی کرپشن تھی لوٹ مار تھی ۔ایک ایسا قید خانہ تھا جس کے دروازہ کو کھولنے کے لیے کوئی چابی سازگار نہ تھی ۔
اب ضرورت اس امر کی تھی کہ جو پارٹیاں انقلاب میں شامل تھیں ان کو ساتھ ملا کر چلا جاتا ان کو حکومت میں نمائندگی دی جاتی ان سے صلاح مشورہ کیا جاتا کہ اس بکھرے ہوے نظام پر کون سا ڈھانچہ تعمیر کیا جائے لیکن امام خمینی نے۔ اس کے برعکس ملائیت سے کام لیا اور ان تمام انقلابی پارٹیوں کو پس پشت ڈال دیا جنہوں نے قربانیاں دی تھی ۔جس آزادی کی خاطر انہوں نے قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کیا تھا ان کا جائزہ مذہبی عینک سے کیا جانے لگا۔

امام خمینی نے اپنی طرز کی شریعت نافذ کرنے کے لیے سب سےپہلے عورتوں کو پابند کیا ۔انہیں چادر اور چار دیواری تک محدود کر دیا گیا ۔لیکن جب یہ عورتیں انقلاب کے لیے لڑ مر رہی تھی اس وقت انھیں ان کی چادر اور چار دیواری کا خیال نہیں تھا۔

۔کیوں کہ طاقت کا منبع امام خمینی تھا اور اس نے شاہ کی طرز (سواک ) کی ایک خفیہ جاسوسی فوج بنائی جس کو ساواما کہا جاتا تھا ۔تمام اختیارات انہیں کے پاس تھے ۔

شریعت کا سب سےزیادہ زور عورت اور سزاوں پر منتج ہوتا ہے ۔عورت کو تمام گناہوں کی جڑ قرار دیا جاتا ہے ۔اور اس کا حل وہ سزا کو سمجھتے ہیں ۔شراب والوں کو اتنے کوڑے ،زنا والوں کو فلاں سزا ،چور کے ہاتھ کاٹ دینا وغیرہ ۔

لیکن انھیں لوگوں کی بھوک افلاس نظر نہیں آتی ۔ایران میں بھی ایسا ہی منظر پیش کیا گیا ۔جس کے نتیجہ میں اصفہان شہر جو ایک انڈسٹریل شہر تھا وہاں بے روزگاروں و مزدوروں کا احتجاج شروع ہو گیا جسکو “پاسداران انقلاب “نے طاقت سے روکا اور مزدور ڈے جو مزدور کا عالمی دن تھا پر پابندی عائد کر دی ۔بس خمینی صاحب کا سارا زور امریکہ مخالف نعروں پر تھا شاہ کے دور میں جس پریس کی آزادی اور اظہار راۓ کی آزادی کی بات خمینی صاحب کرتے تھے وہ انقلاب بعد ان کو یاد نہ رہی ۔

خمینی صاحب کے اس پاس جو لوگ تھے وہ اپنے انٹرویو میں ان لوگوں کو معاشی بحران ،بھوک افلاس ،آزادی اظہار راۓ ،جمہوریت کی بات کرواتے تھے ان کے متعلق فرمایا جاتا تھا کہ” مارکسٹ” ملک میں تخریبی کارروائیوں میں ملوث ہیں ۔اور وہ سوشلسٹ انقلاب کے حامی ہیں ۔بعض ان کے قریبی ساتھ کیمونسٹوں کو سزا کا مشورہ بھی دیتے رہے کیوں۔ کہ وہ۔ مزدور طبقات کی بات کر رہے تھے ۔

یہ قوانین 1979 سے بنائے گئے ہیں جب آیت اللہ خمینی کے زیر قیادت ایران میں انقلاب آیا تھا۔ پولیس کے مطابق سر پر سکارف نہ لینا خواتین کے لیے قومی ڈریس کوڈ کی بھی خلاف ورزی ہے۔

مذہبی ملاں جتنا بھی مقدس ہو اگر وہ عوام کے حقوق کی پاسداری نہیں سمجھے گا اور اسے معاشی سماجی انداز سے بدلنے کی کوشش نہیں کرے گا تاریخ کے اوراق میں یہ مقدسییت سیاہ باب کی شکل میں واضح ہو گی ۔انقلاب ایران کوئی سوشلسٹ طرز کا انقلاب یا انقلاب فرانس کی طرح کا، کہ جس میں جاگیر دارانہ نظام ٹوٹ کر سرمایہ داری نظم میں ڈھل گیا ہو ،نہیں تھا ، بلکہ یہ ایک سامراج کے خلاف اور اس کی کٹھ پتلی حکومت کے خلاف عوامی غیظ و غضب تھا ۔

اور اس کے محرکات خالص سماجی اور معاشی تھے ۔لیکن ملائیت اور سرمایا داری کے طبقات نے اسے ایک رجعت پرست تبدیلی میں بدل دیا ۔اب یہ انقلاب اپنے اندرونی تضادات سے حل ہو گا ۔عوامی غیظ و غضب پھر سے قوت پکڑے گا اور انقلاب کی باگ دور کسی محنت کش کے ہاتھوں میں ہو گی۔
نوٹ: ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply