حقیقی آزادی مگر کس سے ؟ ( قسط 2 ) : جمشید علوی

جاگیر داری نظام یا زمیندارانہ نظام عام طور پر بڑے زمیندار خاندانوں کی طاقت اور اثر و رسوخ سے مراد ہے، خاص طور پر بہت بڑی جائیدادوں کے ذریعے اور دور دراز تک پہلی ہوئی زمینیں ۔

جاگیردارانہ رویہ” سے مراد “تکبر اور استحقاق کا مجموعہ” ہے۔ پاکستان میں پانچ فیصد زرعی گھرانوں کے پاس پاکستان کی تقریباً دو تہائی کھیتی ہے۔ زمیندار پاکستان میں بڑے مشترکہ خاندان سینکڑوں یا اس سے بھی ہزاروں ایکڑ اراضی کے مالک ہوسکتے ہیں، جبکہ زرعی پیداوار میں بہت کم یا کوئی براہ راست حصہ نہیں ڈالتے، جسے کسانوں یا ٹھیکہ کے ذریعے سنبھالا جاتا ہے جو روزی کی سطح پر رہتے ہیں۔
تحریر کا پہلا حصہ پڑھنے کے لیے اس لنک پر کلک کریں : حقیقی آزادی مگر کس سے ؟( قسط ) : جمشید علوی

زمیندار کی طاقت مقامی لوگوں پر قرضوں کی غلامی کے ذریعے نسل در نسل اور پانی، کھاد، ٹریکٹر پرمٹ اور زرعی قرضے کی تقسیم کے ذریعے کنٹرول پر مبنی ہوتی ہے ۔ جس کے نتیجے میں وہ ان پر اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔اپ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کو “جاگیردارانہ” نظام کا رکھوالا کہہ سکتے ہیں ،اگر چہ نیم سرمایہ دار بھی اور 2007 تک قومی اسمبلی کے دو تہائی سے زیادہ (ایوان زیریں) اور صوبوں میں زیادہ تر اہم ایگزیکٹو عہدے “جاگیرداروں کے پاس تھے۔ پاکستان میں کچھ سرکردہ زمیندار خاندان راجپوت، میاں، ملک اعوان، نواب، خان، نوابزادہ، منصبدار، مزاری قبیلہ، ارباب، جٹ، مخدوم اور سرداروں پر مشتمل ہیں۔

ان جاگیر داروں خاندانوں نے اپنے بچوں کو سیاست میں شامل کیا ہے۔ یہ نئے آنے والے جو فوجی آمر، ایوب خان کے دور میں سیاست میں داخل ہوئے، جب انہوں نے ای بی ڈی او کے تحت سیاست دانوں پر پابندی لگا دی، وہ پاکستان کو معاشی طور پر تباہ کرنے میں ملوث تھے۔ سیاست میں یہ جاگیر داری سے سرمایا داری کی جانب چلے گئے اور بدعنوان تنخواہ دار پبلک آفس ہولڈرز کے ساتھ مل کر ادارہ جاتی بدعنوانی، لینڈ اور ڈرگ مافیا کی سرپرستی اور مجرموں کو پناہ دینے میں ملوث ہو گئے ، ملک کو تکنیکی نادہندگی کے دہانے پر لے جانے میں ان کا اہم کردار رہا ہے ۔ موروثی سیاست سے استفادہ کرنے والے، جن کی پرورش ایک ایسے سیاسی ماحول میں ہوتی ہے جس میں حواریوں اور سفاکوں کا غلبہ ہوتا ہے، وہ عاجزی سے عاری ہوتے ہیں جو سیاست میں ایک خوبی ہے۔ جتنی سفاکیت ان میں زیادہ ہو گی اتنے ہی بڑے سیاست دان کہلاے جائیں گے

سیاست پر حاوی اس طبقہ نے عام لوگوں کے لیے سیاست میں کوئی جگہ نہیں چھوڑی ۔سیاست کے۔ لفظ کو اس اشرافیہ نے پاکستان میں گالی بنا کر رکھ دیا ہے ۔برسوں کی زیادتیوں نے پاکستان کے لوگوں کو مایوسی کی طرف دھکیل دیا ہے۔ جہاں حکمران اشرافیہ خوشحال طرز زندگی گزارتے ہیں، وہیں شہری غربت میں رہتے ہیں۔

تحریر جاری ہے ۔۔
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply