اکثر لوگ یہ کہتے ہیں کہ موروثیت ایک فطری شے ہے جس کو ختم نہیں کیا جا سکتا ،دلیل کے طور پر وہ کہتے ہیں کہ اگر ایک وکیل کا بیٹا وکیل ،ایک تاجر کا بیٹا تاجر ،ایک فنکار کا بیٹا فنکار بن سکتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے کہ سیاست دان کا بیٹا سیاست میں نہیں آ سکتا ؟
دوسرا وہ سیاست کی موروثیت پر بہت سی ممالک کی مثالیں پیش کرتے ہیں ۔مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی ہندوستان کے پہلے وزیر اعظم جواہر لعل نہرو کی بیٹی تھیں۔ بنگلہ دیش کی موجودہ وزیراعظم حسینہ واجد ملک کے پہلے وزیراعظم مجیب الرحمان کی صاحبزادی ہیں۔ سابق وزیر اعظم سریماو بندرانائیکے سری لنکا کے آنجہانی وزیر اعظم SWRD بندرانائیکے کی اہلیہ تھیں۔
اسی طرح امریکا کے روز ویلٹ ،کنیڈی ،بش فمیلی ،کلنٹن فیملی ،ٹرمپ اور جوباییڈن اور کنیڈا کے جسٹن ترودو وغیرہ ۔
پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی صاحبزادی تھیں۔ ان تمام مثالوں کو اپنے اپنے ممالک میں اعلیٰ ترین سیاسی موروثی حیثیت حاصل تھی۔ اندرا گاندھی کے علاوہ باقیوں نے اپنے آباؤ اجداد (والد اور شوہر) کے قتل کی مشترکہ میراث رکھی۔ انہیں کم عمری میں ہی مسلط کردہ سیاسی مشکلات، نظر بندی، زبردستی جلاوطنی، گھروں سے بھاگنا، بدنامی اور کردار کشی کا سامنا کرنا پڑا۔ سیاسی قیادت کا انتخاب کرنے کے ان کے فیصلے کو بے پناہ امتیازی سلوک، انسانی سطح پر ان کے وجود کو روکنے اور خون کے رشتوں کو کھونے کے بعد بھی ان کی ہمت کو داد دینی پڑتی ہے ۔
یہ مندرجہ بلا کم و بیش دوسری نسل تک چلے لیکن یہ سب سیاسی عمل کے ذریعے ترقی کر کے نمایاں ہوئے ہیں۔ انہوں نے جمہوری روایت کی پاسداری کی ۔جمہوری نمائندوں نے سیاسی اداروں اور عمل کو مضبوط کیا ہے جو ورثاء کو سیاسی فریم ورک کے اندر اپنے آباؤ اجداد کے نقش قدم پر چلنے اور نچلی سطح پر سیکھنے کی تیاری شامل رہی ہے ، اس طرح وہ سیاسی عمل سے گزر کر اعلیٰ ترین عہدوں پر پہنچ جاتے ہیں۔ ان کا کام محض اپنے خاندان کے اثاثہ جات میں اضافہ نہیں رہا ہوتا نہ ہی اپنی جاگیر یا زمین کے بل بوتے پر وہ اداروں کو اپنے گھر کی لونڈی بنا لیتے ہیں اور نہ ہی اپنے سیاسی مخالفین کو نیچا دکھانے کی خاطر سرکاری ذرائع کا بے دریغ استمال کرتے ہیں اگر ہم ٹروڈو کی مثال لیں تو وہ پارٹی کے رکن اور پھر یوتھ ونگ لیڈر کے طور پر سیاست میں شامل ہوئے۔
پاکستان میں آج ہمیں موروثی سیاسی نام کا کھیل مریم نواز، بلاول بھٹو زرداری، حمزہ شہباز اور کلثوم نواز ،ان کے علاوہ دوسری قدرے چھوٹی پارٹیوں میں بھی نظر اتا ہے ۔پاکستان میں سرمایہ داری ابھی پوری طرح ابھر کر سامنے نہیں آنے دی گیی ۔نیم جاگیر داری کی باقیات ابھی بھی نظام پراپنا منحوس سایہ رکھے ہوے ہے
خاندانی اور موروثی سیاست پاکستان کے سیاسی نظام کی ناکامی کی ایک بنیادی وجہ ہے – پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں میں ہر جگہ یہ بیماری موجود ہے ،جہاں پارٹی میں اعلیٰ ترین عہدے پر فائز ہونے کا واحد میرٹ پارٹی لیڈر کا رشتہ دار ہونا بنیادی شرط ہے حقیقی طور پر محنتی اور لگن والے سیاسی کارکنوں کی ضرورت صرف نعرے لگانے اور پارٹی کے لیے قربانی دینے کے لیے ہوتی ہے جبکہ تمام مراعات پارٹی لیڈر کو دی جاتی ہیں جو اپنے اجتماعی سیاسی اور معاشی مفادات کی بنیاد پر ایک بڑا رشتہ دار گروپ بناتا ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جمہوری اصولوں کے فقدان کا مطلب یہ ہے کہ پارٹی کے اندر سے کوئی حقیقی قیادت ابھر کر پارٹی میں اعلیٰ عہدوں پر نہیں پہنچ سکتی۔ اس لیے عام لوگ پورے سیاسی نظام میں اپنا اعتماد اور دلچسپی کھو دیتے ہیں جہاں ان کا کوئی کردار نہیں ہوتا بلکہ وہ ایک مستقل سیاسی اور فکری غلامی میں رہتے ہیں۔ موروثی سیاست کی پیروی کرنے والے سیاسی خاندان اپنی اگلی نسل کو پارٹی کی قیادت کرنے کے لیے تیار کرتے ہیں۔ جیسے نواز شریف نے مریم نواز کو ،زرداری نے بلاول کو ،مولانا صاحب نے اپنے بیٹے کو ، اسی طرح نچلی سطح پر ایم این اے یا ایم پی اے بھی اپنی جاگیر ،زمین اور سرمایا کی طاقت پر اپنی بہن ،بھائی ،بہو ،بیٹوں ،کزن وغیرہ کو تیار کرتے ہیں جس سے حقیقی سیاسی کارکن کو سبقت حاصل کرنے کے لیے کوئی راستہ نہیں ملتا ، اس طرح پارٹی کے اندر کسی بھی ممکنہ مثبت مقابلے کا خاتمہ ہو جاتا ہے۔
مرکزی دھارے کی سیاسی جماعتوں پر حکمرانی کرنے والی نسل کی سیاسی اہلیت پر سوال کھڑا ہوتا ہے ،کیا ان میں اتنی سیاسی بصیرت ہے کہ جتنی اس کے باپ دادا یا پردادا میں تھی ؟
اگر پارٹی میں اس سے بہتر اور سینئر سیاسی قیادت موجود ہے تو پھر ان کا کیا سیاسی جواز رہ جاتا ہے ۔پیپلز پارٹی میں ایسے سینئر لوگ موجود ہیں جو بھٹو کے ساتھ سیاسی طور پر شریک تھے اس طرح نوں لیگ اور پاکستان تحریک انصاف کی نچلی لیڈر شپ ،جہاں شاہ محمود قریشی جو ایک کرکٹ کے کھلاڑی سے سیاست کا زیادہ تجربہ رکھتا ہے ۔جہاں موروثیت نہیں ہے تو وہاں میرٹ کی دھجیاں بکھیر دی گئی ہیں ۔
سیاست کو ایک ادارہ کے طور پر لیا جانا چاہیے اور اپنی جماعتوں اور ملک کے اندر جمہوری کلچر کو مضبوط کرنا چاہیے۔ کیوں کہ یہ موروثیت اور خاندانی سیاسی نظام نو آبادیات کا عطاء کردہ ہے ،اور ان نو آبادیات کا تھانیدار اب امریکہ ہے ،جس نے پاکستان کے ان خاندانوں کو قرضے دے دے کر مفلوج کر دیا ہے ،وہ اپنی مراعات اور عیاشیوں میں لگے ہوے ہیں ،انہوں نے ملک کے سیاسی ادارہ کو اپنے خاندان کی رکھیل بنا رکھا ہے اور انھیں پاکستان کی عوام کے مسائل سے کوئی سرو کار نہیں ،لہذا یہ نسل در نسل موروثی سیاست دیمک کی طرح ریاست پاکستان کو چاٹ رہی ہے ۔
مجھے اس سے کوئی مسلہ نہیں ہے کہ اگر ایک سیاست دان کا بیٹا سیاست میں قدم رکھے لیکن اگر اس میں سیاسی اہلیت نہیں ہے تو ایسی سیاسی موروثیت کا قلع قمع کرنا از حد ضروری ہے ۔
اگر ڈاکٹر کے بیٹے کو ڈاکٹر بننے کا شوق ہو تو اسے اس کی تعلیم حاصل کرنی پڑے گی یہ نہیں ہو سکتا کہ ڈاکٹر صاحب اس کو تعلیم دیے بغیر اپنے ساتھ کرسی پر بیٹھا کر ڈاکٹر ڈاکٹر کہنا شرو ع کر دیں اس طرح وہ بہت ساروں کی جان لے سکتا ہے ۔
نوٹ: ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں