غلامی : جمشید علوی

یورپی کلچر میں کالے اور سفید کا تعصب بہت قدیم ہے ۔کالے کو برائی کی علامت سمجھا گیا،اس۔ کو نحوست قرار دیا گیا ،جہنم کا لباس کو کالا رنگ دیا گیا جیسے کالی بھیڑ ،بلیک لسٹ ،کالا علم کالا جادو ،کالا منہ وغیرہ آج بھی استمال ہوتا ہے
اور سفید کو آزادی ،اچھائی اور امن کی علامت سمجھا گیا ۔

دو تین قسط وار پوسٹ کی صورت اس پر روشنی ڈالیں گے اگر وقت ملتا گیا تو جلد ہی اس کو مختصر کرتے ہوے مکمل کرتے جایئں گے تاکہ ہمیں ہمیں اس کے پیچھے موجود مذموم مقاصد کی سمجھ آ سکے اور آج جو قوم کو ایک دم سے غلامی۔ سے آزادی۔ کا جنوں سواار ہو چکا ہے اس غلامی۔ کی جڑوں کو سمجھا جائے جب تک غلامی کی جڑ تک اور اس کے کاشت کرنے والے ہاتھ تک نہیں پہنچ سکیں گے اس وقت تک ہم نہ آزادی کو سمجھ سکتے ہیں نہ ہی جدید غلامی کو،یہ سمجھنا اس لیے بھی ضروری ہے کیوں کہ جب تک مسلہ کا صحیح ادرک نہ ہو مسلہ کو ختم نہیں کیا جا سکتا ۔

قسط 1۔
جیسا کہ ذکر کیا گیا عیسائی کلچر میں نسل پرستی کی جڑیں بہت گہری ہیں اس نسل پرستی نے نسلی تفاخر کو جنم دیا اس حد تک کہ یہ نصاب کا حصہ تھا کہ کالے وحشی اور غیر مہذب ہیں ۔کالے جسمانی طور پر طاقتور لیکن عقلی طور پر بیوقوف ہیں، اور گورے سست اور چالاک ہیں لہذا فطرت گورے کو یہ حق دیتی ہے کہ کالے سے جسمانی مشقت لے کر ان پر نگرانی کریں ۔یہ ان کا کار گر فلسفہ تھا جس کو علم بشریات سے بھی ثابت کیا گیا

اس تعصب کا مقصد
ایک تو سفید آقاؤں کی نسلی برتری تھا
دوسرا یہ جواز مل گیا کہ کالے کو مہذب بنایا جائے تیسرا جو اہم مقصد تھا اپنی نو ابدیات کو قائم رکھا جائے ۔
سفید نسل کی برتری کے لیے سائنس کو بھی استمال کیا گیا اور نظریہ ڈارون کا بھی استمال کر کے مختلف مفکروں نے اس پر مہر ثبت کر دی کہ ایسی اقوام کو پیدائشی طور پر فطرت نے حاکم بنایا ہے لہذا ان کا حق ہے کہ دوسری کم تر نسل پر حکمرانی کریں ۔
جب نظام تبدیل ہوا سرمایہ داری نے جدید شکل میں کروٹ بدلی اور جب غلام ضرورت سے زیادہ ہوتے گئے اور صنعتی ترقی ہوئی تو غلام ان پر بوجھ بن گئے ۔پھر ان میں انسانیت کے جراثیم جاگ گئے پھر ان کی نظر میں غلامی غیر فطری قرار پائی اور غلاموں کو آزاد کیا گیا ۔لیکن اس آزادی کے پیچھے سرمایہ داری کا منافع اور معاشی وجوہات تھی جس کی بنیاد پر غلامی کا ادارہ مہنگا پڑتا تھا لہذا صنعت نے مزدور طبقہ کو جنم دیا اور اس کا استحصال جاری رہا ۔

سفید نسل عقل پرستی اور فکر کی علامت بن گیی ۔چرچ کی جگہ سائنس نے لے لی ۔پھر سائنسی بنیادوں پر نسل پرستی کو جائز قرار دینے کے لیے بہت سے مفکر اپنی نسلی تعصبیت کی اجارہ داری کی خاطر میدان میں کود پڑے ۔

(جاری ہے قسط 2 میں اس کا تاریخی پس منظر کا جائزہ لکھیں گے ۔تاکہ اپ پر زیادہ بوجھ بھی نہ پڑے ۔)
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

Leave a Reply