ہند مسلم تہذیب اور ایمن آباد کا مندر : انعام کبیر

برصغیر میں بدھ ازم کے علاوہ اگر کسی تہذیب میں کشش اور جاذبیت محسوس ہوتی ہے تو وہ ہند مسلم تہذیب ہے۔ یہ تہذیب جو مختلف تہذیبی، ثقافتی اور لسانی رویوں کے ملاپ سے وجود میں آئی، تقریبا ڈیڑھ ہزار سالہ تاریخ پر محیط ہے۔ اس دوران میں ہندو اور مسلم اقوام اس طرح پروان چڑھتی رہیں جیسے کسی خاندان میں مختلف المزاج افراد زندگی گزارتے ہیں۔

یہ وہ زمانہ تھا جب ایک ہی شہر میں مندر بھی تھے اور مساجد بھی۔ ایک ہی جنگل میں جوگی تپسیا کرتے اور صوفی مراقبے میں محو رہتے۔ اُنھیں بھی نروان مل جاتا اور یہ بھی گیان کی دولت حاصل کر لیتے۔ پرندے مندر کے کلس سے اٹھتے اور مسجد کے گنبد پر جا بسیرا کرتے۔

مگر یکایک یہ کیسی ہوا چلی کہ محبت بھری فضا میں بارود کی بُو پھیل گئی۔ دلوں میں نفرتیں جا گزیں ہونے لگیں۔ یہ نفاق انگیزی اس قدر بڑھی کہ ڈیڑھ ہزار سالہ اتفاق ختم ہو گیا۔ کدورتوں کا یہ عالم تھا کہ دونوں اقوام کے درمیان دیوار کھڑی کرنی پڑی۔ اس دیوار کے نیچے ہند مسلم ثقافت کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیاگیا۔

مگر آج بھی اس تہذیب کے مسخ شدہ آثار پورے خطۂ برصغیر میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ کہیں مسجدیں ویران پڑی ہیں تو کہیں مندر سنسان ہیں۔

جس طرح گزشتہ برس گوجرانوالہ کے علاقے موڑ ایمن آباد میں سکندر لودھی کے دور کی ایک مسجد دیکھنے کا اتفاق ہوا جو غیر آباد تھی۔ وقت کے تند ریلے نے اس کے گرد موجود آبادی کو موت کے گھاٹ اتار دیا تھا۔

اس طرح گوجرانوالہ ہی کے علاقے بدوکی گوسائیاں میں کل ایک مندر دیکھا جس کا سناٹا چیخ چیخ کر اپنے چاہنے والوں کو بلا رہا تھا۔ مگر وہاں چند ایسے نوجوانوں کے سوا کوئی نہ تھا جو محض تفریح کی غرض سے آئے تھے۔ یہ عبادت گاہ جب آباد ہو گی تو ہزاروں چاہنے والوں کے لطیف جذبات و خواہشات کا اظہار یہیں ہوتا ہو گا۔اب مندر کھنڈر کی صورت اختیار کر چکا ہے ۔ اس کی سیاہ دیواروں پر پریمیوں نے اپنے اور اپنی محبوباوں کے نام کندہ کیے ہوئے ہیں اور دلوں میں موجود خواہشوں کے بُت نکال کر دیواروں پر آویزاں کر دیے ہیں۔

مندر کے چوگرد اشنان گاہ میں موجود جھاڑیاں بے شمار حشرات الارض کی قیام گاہ بنی ہوئی ہیں۔ ایک نکڑ پہ خواتین کے اشنان کے لیے الگ سے حوض بنا ہے جس کی دیواریں خراب و خستہ حالت میں ہیں۔ مگر مندر کی اصل عمارت زمانے کے سرد و گرم سہنے کے باوجود اپنی جگہ پر اسی طرح قائم ہے۔

مندر کے عقب میں کھجور کے دو درخت لگے ہیں جو عرب ممالک کے نمائندہ ہیں۔ مگر درختوں کا مذہب تھوڑی ہوتا ہے۔ انھیں مساجد میں اگا لیجیے یا مندروں، کلیساوں میں۔ وہ برابر پھل دیں گے اور سایہ کریں گے۔ ان کھجوروں کے پہلُو میں مسلمانوں کا قبرستان آباد ہے۔ یہی وہ ہندو مسلم امتزاج تھا جس نے میرا دھیان فوراً اس مشترکہ تہذیب کی طرف دلایا۔ جس کے مٹے ہوئے آثار اب بھی موجود ہیں۔

مندر کے شمال کی طرف برگد کا ایک درخت ہے جس کے ساتھ اشنان گاہ کی سیڑھیاں بنی ہوئی ہیں۔ ان سیڑھیوں پر میں کافی وقت بیٹھا رہا اور مندر کے عقب میں ڈوبتے سورج کو دیکھتا رہا۔ مندر کے سامنے پکی سڑک پر سے کبھی کوئی گاڑی گزر جاتی اور اس پر اسرار اور طلسماتی فضا کو چیر دیتی۔

Leave a Reply