حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو 51 سال کی عمر میں نبوت کے بارہویں سال مشہور قول کے مطابق 27 رجب کو معراج ہوا. اسراء کے معنی رات کو لے جانے کے ہیں جس کا ذکر پندرھویں پارہ کی ابتدا میں ہے ۔مسجد اقصیٰ سے جو سفر آسمانوں کی طرح ہوا اس کا نام معراج ہے ۔اس کا ذکر سورۃ النجم اور متواترہ احادیث میں موجود ہے ۔مکہ مکرمہ سے بیت المقدس تک یہ سفر براق پر ہوا یہ تمام سفر بیداری میں پیش آیا محض خواب نہیں تھا ۔اس لیے قرآن پاک نے اس کو بڑی اہتمام سے بیان کیا ۔نیز مشرکین کے اعتراضات سے ثابت ہوا کہ یہ سفر محض روحانی نہیں تھا ۔جب آپ مسجد بیت المقدس میں داخل ہوئے دو رکعت تحیۃ المسجد ادا فرمائی پھر آپ پہلے آسمان پر تشریف لے گئے جہاں آپ کی ملاقات حضرت آدم علیہ السلام سے ہوئی ۔دوسرے آسمان پر حضرت عیسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی ۔تیسرے آسمان پر حضرت یوسف علیہ السلام سے ملے چوتھے آسمان پر حضرت ادریس علیہ السلام سے ملاقات ہوئی پانچویں پر حضرت ہارون علیہ السلام سے اور چھٹے پر حضرت موسی علیہ السلام سے ملاقات ہوئی اور ساتویں آسمان پر حضرت ابراہیم خلیل اللہ سے ملاقات ہوئی ۔پھر آپ سدرۃ المنتہیٰ تک پہنچے جس پر سونے کے پروانے اور مختلف رنگ کے پروانے گر رہے تھے اس جگہ پر آپ نے جبراءیل امین کو اس کی اصل شکل میں دیکھاجن کے 600 پر تھے آپ نے بیت المعمور کو بھی دیکھا جس کے پاس بانئ کعبہ حضرت ابراہیم علیہ السلام دیوار سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے بیت المعمور میں روزانہ ستر ہزار فرشتے داخل ہوتے ہیں جن کی باری پھر قیامت تک نہیں آئے گی ۔آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جنت اور دوزخ کا بچشم خود معائنہ فرمایا ۔سدرۃ المنتہیٰ سے اوپر جہاں جبرائیل بھی نہیں جا سکتے تھے آپ نے اکیلے سفر کیا جہاں سات آسمان سورج چاند ستارے اور زمینیں نیچے تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم 14 طبق سے اوپر تھے جہاں تقدیر کے قلموں کے لکھنے کی آواز سنائی دے رہی تھی وہاں پر آپ نے اللہ کے دربار میں تین تحفے پیش کئے ۔التحیات للہ والصلوات والطیبات۔
کہ تمام قولی عبادتیں اللہ کے لیے ہیں تمام بدنی عبادتیں اللہ کے لئے اور تمام مالی عبادتیں بھی اللہ ہی کیلئے ہیں۔ جواب میں اللہ نے نبی پاک کو سلام پیش کیا رحمت اور برکت نازل فرمائے ۔السلام علیک ایھاالنبی ورحمة اللہ وبرکاتہ۔ نبی پاک نے اپنی امت کے لیے بھی رحمت طلب کی تواللہ نے فرمایا فرمایا امت کو بھی ساتھ شامل کر لو ۔تو آپ نے فرمایا السلام علینا وعلی عباداللہ الصالحین ۔ہم پر بھی سلامتی اور صالح نیک آدمیوں پر بھی اللہ کی سلامتی ہو۔
پھر آپ کو تین تحفے ملے؛ ایک تو پانچ نمازوں کا تحفہ، دوسرا سورۃ البقرہ کی آخری آیات، تیسرا شرک کرنے والوں کے علاوہ باقی سب کے لیے مغفرت ۔
اس کے بعد آپ واپس بیت المقدس اترے۔تمام انبیاء علیھم السلام مثالی اجساد کے ساتھ آپ کو رخصت کرنے بیت المقدس تک آئے آپ نے تمام انبیآء کی امامت فرمائی جس سے آپ کو امام الانبیاء کا لقب ملا ۔اس کے بعد آپ بیت المقدس سے رخصت ہوئے اور براق پر سوار ہو کر اندھیرے کے وقت مکہ معظمہ پہنچ گئے ۔
بہت مختصر الفاظ میں واقعہ معراج کو بیان کردیا گیا تفصیلات تو بہت زیادہ ہیں ۔
Load/Hide Comments