پاکستانی سیاست نے تعمیری سیاست سے تو تو اور میں میں کی روش کب اختیار کی کچھ یاد نہیں . بہت زور دینے پر مبہم سا خیال ابھرا کہ جب سیاست کے نام پر ملک کی تعمیر وترقی پر اپنے مفادات کو ترجیح دی جانے لگی تب ھمارے معاشرے میں بگاڑ پیدا ھونے لگے. لوٹ کھسوٹ، کرپشن اور دیگر ناہمواریوں نے جنم لیا ، جسں میں عدل وانصاف اور برابری کی سطح پر حقوق کا نا ملنا سب سے بڑی برائی ہے.
جس معاشرے میں عدل کی بنیاد پر فیصلے نہیں کئے جاتے وہ قومیں تنزلی کا شکار ھو جاتی ھیں کیونکہ جب آپ عدل و انصاف کو پس پشت ڈال دیتے ھیں تو یہ امر آپ کے ضمیر کے مردہ ھونے کی نشاندہی کرتا ھے اور اسکی عکاسی آپ کے معاشرے کی طرز سے ھوتی ھے.
یہی مردہ ضمیر لوگ آپکے اداروں کو بھی شکار کرتے ھیں۔
ھمارے ھاں اعلی و ادنی کی ایسی تفریق نے جنم لیا کہ اس معاشرے کا عام آدمی ھر حق سے محروم ھوتا چلا گیا وہ تعلیم ھو یا اچھا رہن سہن ھو ، روزگار ھو یا عدل ھو ، اسے ھر معاشرتی ناہمواری کا سامنا کرنا پڑتا ھے ۔
بڑے آدمی کے لئے ھر دروازہ کھلا ھے جبکہ عام شخص کو بنیادی حقوق بھی ترلے سے حاصل ھوتے ھیں یا پھر اسکی بھی کوئی ضمانت نہیں، بڑے لوگوں کو تو ملک لوٹ کر کھا جانے پر بھی فرسٹ کلاس جیل کی سہولت مہیا کی جاتی ھے، ڈاکٹرز چیک اپ کے لئے جیل آتے ھیں یا محترم قیدی کو اسپتال لیجایا جاتا ھے ۔ مگر عام انسان بہت پیچیدہ بیماری کے باوجود جیل کی سلاخوں کے پیچھے معالج کی راہ تکتا موت کی آغوش میں چلا جاتا ھے۔
اعلی حیثیت کو تو بیرون ملک روانگی کا پروانہ بھی دے دیا جاتا ھے مگر کسی کمزور کو ضعیف العمری کے باوجود بھی ضمانت حاصل نہیں ھوتی۔
یہ ھمارے اداروں کی مردہ ضمیر ھونے کی اور اخلاقی پستی کی افسوسناک نشاندہی ھے۔
Load/Hide Comments