یونیورسٹی کی طالبہ سے زیادتی، ھائی وے پر جاتی دو بچوں کی ماں سے زیادتی، 6 سالہ بچی سے زیادتی کے بعد اسکا قتل، بیرون ملک سے آئی 15 سالہ لڑکی کو ھراساں کرنا. اے ہوس پرست درندے تیری بھوک ھے کہ مٹنے کا نام ھی نہیں لیتی!
اور اس مکروہ سوچ نے سوچ تجھے یہ بات بھی بھلا دی کہ تو “ابن آدم ھے ، ابن ابلیس نہیں “!
کیا تیرے دل سے رب ذوالجلال کا ڈر ایسے نکل گیا کہ تو ابلیس کی صف میں آ کھڑا ھوا۔
کیا تجھے 6 سال کی بچی کو ہوس پرست نظروں سے دیکھتے اپنی بیٹی یاد نہ آئی؟
جس درندے نے بچوں کے سامنے انکی ماں کی عزت پامال کی اسے اپنی بہن کا خیال نہ گزرا۔
اس قدر ہوس پرستی کہ مرد کو جو اعزاز خدا نے بخشا، عورت سے دو درجہ بلند حیثیت پر رکھا وہ سر بلندی کا تاج بھی روند ڈالا،ایسی وحشت کیوں؟
کیا اس چھ سالہ بچی نے تجھے رجھایا؟
کیا اپنی منزل کی طرف گامزن ،دو بچوں کے ہمراہ اس عورت نے تجھے اپنی اداوں سے مائل گناہ کیا؟
ابن آدم کے ہاتھوں بنت حوا کی عزت کو تار تار کرنے کا یہ انسانیت سوز کھیل آخر کب تمام ھوگا ؟ ان بھیڑیوں کے منہ کو لگے عصمتوں کے خون کی چاٹ کون آگے بڑھ کر ختم کرے گا؟؟
ادھر بھی ابن آدم ھیں جو حکمران ھیں جو بالواسطہ یا بلاواسطہ انکی درندگی میں مددگار ھیں . لگڑبگوں(ھائناز) کے غول کو موقعہ پر گولی مار دی جائے یا سنگسار کیا جائے لیکن ھمارے مصلحتوں کے مارے حکمراں جو باہر سے ملنے والی ایڈز کی لالچ میں اور نام نہاد انسان کے حقوق کی علمبردار این جی اوز کے پریشر میں آکر وقتی فیصلہ نہیں کر پاتے۔
کس سوچ کے تحت آپ ان کو پھانسی پر نہی لٹکاتے فی الفور؟ کس بات کی تحقیقات مطلوب ھوتی ہیں آپکو یا آپ دوسروں کی عزتوں سے کھیلنا بھی اک جمہوری حق تصور کرتے ھیں؟؟
18 دسمبر1977 کو ایک گھر کے ڈرائیور نے اسی گھر کے بچے کو اغوا کیا اور پھر قتل کر ڈالا اپنے پانچ ساتھیوں سمیت. گرفتاری کے بعد فوری فیصلہ سنایا گیا 3 مجرموں کو پھانسی سنائی گئی اور نشان عبرت بنانے کے لئے پہلی بار سر عام پھانسی کا فیصلہ کیا گیا.
23 مارچ کیمپ جیل کے باہر پھانسی کے تختے بنائے گئے اور لاکھوں کی تعداد میں کھڑے لوگوں کی موجودگی میں ان ظالموں کا زندگی سے ناطہ توڑ دیا گیا اور پھر سالہا سال کسی بھیڑیے نے کسی عصمت کا تعاقب نہیں کیا۔
Load/Hide Comments