جب دنیا کے نقشے میں ایک تبدیلی ہوئی اور پاکستان معرض وجود میں آیا تو اسے بنانے والا قائد اور لیاقت علی خان کُچھ ہی عرصہ بعد چل بسے، پاکستان کو سنبھالنا مشکل ہوگیا اور ہر تھوڑے عرصے بعد حکومت تبدیل ہونے لگی اس وقت فوج کے سپہ سالار جنرل ایوب تھے اور ہمارے سیاستدانوں نے خود انہیں خوش آمدید کہا کہ وہ پاکستانی سیاست میں حصہ لیں یوں انہیں پاکستان کا وزیر دفاع بنا دیا گیا جب کہ اُسی وقت وہ سپہ سالار کے عہدے پر بھی فائز تھے، وہ وردی پہنے کابینہ کی میٹنگ کا حصہ بنا کرتے تھے اور پھر ایک دن مکمل اختیارات حاصل کرنے کے لئے اُنہوں نے ملک میں پہلا مارشل لاء نافذ کر دیا۔
جب ملک کے ہر کونے سے اُن کے خلاف آوازیں اٹھنے لگیں تو بجائے اس کے کہ کوئی آئینی راستہ اختیار کرتے اُنہوں نے اقتدار جنرل یحییٰ کو سونپا اور سبکدوش ہوگئے۔ جنرل یحییٰ نے 1970 میں عام انتخابات کروائے اور اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی کو دبانا چاہا جس کے نتیجے میں یہ ملک دو حصوں میں تقسیم ہوگیا۔ موجودہ پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو اقتدار کے منصب پر فائز ہو گئے اور میرٹ کی دھجیاں اراتے ہوئے جنرل ضیاء الحق کو فوج کا سپہ سالار بنا دیا۔ چونکہ ضیاء کے متعلق مشہور ہے کے وہ بھٹو کے بُہت وفادار تھے اس لئے انہیں کبھی یہ سوچ نہیں آئی کہ وہ اسکے خلاف بغاوت کر سکتا ہے لیکن ایک سبھو جب اٹھے تو معلوم ہوا کہ ہمارا ملک محفوظ ہاتھوں میں ہے، جنرل ضیاء حکومتی منصب پر فائز ہو چکے ہیں اور بھٹو پابندِ سلاسل ہو چُکے ہیں۔
وقت گزرا عام انتخابات میں نواز شریف دو تہائی اکثریت لیکر وزیرِ اعظم پاکستان منتخب ہوئے اور انہوں نے بھی بھٹو والی غلطی دہرائی اور میرٹ کے برعکس پرویز مشرف کو چیف آف آرمی سٹاف مقرر کر دیا۔ نواز شریف تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا چاہتا تھا تاہم جلد ہی اُن کے تعلقات پرویز مشرف سے بگڑنا شروع ہوگئے اور پھر ہم نے دیکھا جیسے ہی مفاہمت اختیار ہوئی کس طرح نواز حکومت کا خاتمہ ہوا اور انہیں جِلا وطن کر دیا گیا دس سال بعد واپسی ہوئی اُسی دوران بینظیر کا قتل ہوا ہمدردی کی بنا پر ووٹ پڑنے کی وجہ سے آصف علی زرداری کی حکومت قائم ہوئی اور وہ صدرِ پاکستان بن کر تمام معاملات کو دیکھتے رہے۔
اُدر نواز شریف نے پھر مفاہمتی پالیسی اختیار کی اور اگلے انتخابات میں دوبارہ وزیرِ اعظم بن گئے۔ قدرت کا کھیل کہ پانامہ لیکس آگئی اور نواز شریف اسکی زد میں آتے ہوئے تاحیات عدالت عظمٰی کی جانب سے نا اہل قرار دے دیئے گئے۔
نواز شریف نے اس غصے میں کہ انہیں ریسکیو نہیں کیا گیا ‘ ووٹ کو عزت دو ‘ کا نعرہ لگایا اور مزاحمتی پالیسی اختیار کر لی۔ پھر ہم نے دیکھا کہ اس نتیجے میں انہیں سلاخوں کے پیچھے ڈالا گیا ملک میں عمران خان کی حکومت بن گئی اور پھر نواز شریف علاج کی غرض سے عدالت سے اجازت لیکر دو ماہ کے لئے برطانیہ روانہ ہوگئے اور مزاحمتی پالیسی پر کام کرتے رہے تاہم انہیں ٹی-وی چینلز پر آف ایئر کر دیا گیا۔ چھوٹے بھائی شہباز شریف مفاہمتی پالیسی پر یقین رکھتے ہیں وہ اسی پالیسی پر کام کرتے رہے اور اسی اثناء میں عمران خان اور موجودہ آرمی چیف میں کُچھ اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں۔
پھر ہم سب نے دیکھا کہ کس طرح عمران خان کو ہٹا کر میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز کیا گیا۔اس دن سے لیکر اب تک پوری مسلم لیگ ن بشمول نواز شریف اور اُنکی بیٹی کے سب نے مفاہمتی پالیسی اختیار کی ہوئی ہے جب کہ عمران خان اس دن سے جب اُسے وزیرِ اعظم ہاؤس چھوڑنے پر مجبور کر دیا گیا تھا مفاہمتی پالیسی پر کام کر رہے ہیں اور فرما رہے ہیں کہ ریاست انہیں غیر آئینی طریقے سے دبا رہی ہے ۔
لیکن ان سے بلکہ سب سیاستدانوں سے پوچھا جاسکتا ہے کہ انہوں نے کب آئین کی حفاظت کی ہے ، کب اپنی جماعتوں میں موجود موروثیت کا خاتمہ کیا ہے، کب انہوں نے اپنے لیڈروں کی آمریت کے مقابلے میں جمہوریت کی پاسداری کی ہے۔ بلاشبہ فوج کو سیاست میں دخل نہیں دینا چاہیے لیکن اس کا موقع تو خود سیاستدان اسے فراہم کرتے ہیں۔ سیاستدان پہلے اپنا گھر ٹھیک کریں، اپنی جماعتوں کو جمہوری بنائیں، موروثیت کا خاتمہ کریں، اتفاق رائے سے انتخابی اصلاحات کریں اور ان کو عملی جامہ پہنائیں۔ صاف و شفاف انتخابات کے ذریعے برسراقتدار آنے والی حکومت کو تسلیم کریں اور قومی مفاد میں اسے کام کرنے کا موقع دیں۔ ایسی صورت میں فوج کو سیاست میں مداخلت کا موقع ہی نہیں ملے گا۔ اگر وہ دخل دے گی تو سیاستدانوں کا عدم تعاون اسے پیچھے ہٹنے پر مجبور کردے گا لیکن یہ کام مزاحمت سے نہیں مفاہمت ہی سے ممکن ہے۔
نوٹ : ہم دوست ویب سائٹ اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں