“زمانہ بڑا خراب آ گیا ہے ,مکرو فریب کا بازار گرم ہے. بےحیائی انتہاء کو پہنچ چکی ہے ” اس قسم کے جملے ہم اکثر کہتے سنتے رہتے ہیں ‘ بلاشبہ یہ باتیں سچی بھی ہیں لیکن کیا واقعی ہم اس صورتحال کو بدلنا چاہتے ہیں یا یہ تذکرہ محض ایک فیشن بن چکا ہے. لیکن سوال یہ کہ اسکا علاج کیا ہے؟اور اسے بدلنے کیلیے ہم کیا کر سکتے ہیں. یہ سوچ اکثر لوگوں کے موضوعات سے یکسر خارج ہے لوگ نہ صرف تذکرہ کر کے خاموش ہو جاتے ہیں بلکہ خود انہیں میں شامل ہو جاتے ہیں. اگر واقعی ہمیں اس صورتحال پر تشویش ہے تو ہمارا کردار کیا ہونا چاہیے.
فرض کیجیے ایک ہولناک آگ ہماری آنکھوں کے سامنے بستی کو لپیٹ میں لے لے تو ہم صرف اظہار افسوس ہی کرتے رہیں گے اور ہاتھ پاؤں ہلانے کی کوشش نہ کریں گے ؟اس موقع پر بےوقوف سے بیوقوف شخص بھی قصہ سنانے کے بجائے فائر برگیڈ کے پہنچنے سے پہلے خود آگ پر پانی یا مٹی ڈالے گا، لوگوں کو اس کام میں شریک کریگا آگ پر قابو پانا ممکن نہ ہوا تو پاس والی چیزوں کو آگ سے دور کرےگا لوگوں کی جان بچانے کیلیے محفوظ جگہ منتقل کرے گا جو چیزیں آسانی سے بچائی جا سکتی ہیں بچائے گا بیوی بچوں کو آگ میں گھس کر نکالے گا کم از کم خود تو بھاگ کھڑا ہو گا. لیکن یہ بات کسی انسان سے ممکن نہیں کہ آگ لگنے کے زبانی اظہار افسوس کر کے جبکہ آگ بیشمار انسانوں کو جلا چکی ہو خود بھی اسمیں کود پڑے.
اگر واقعی ہمارے اندر اللہ کی نافرمانی کی آگ بھڑک رہی ہے اور ہم اپنے بیوی بچوں اور خاندان میں محسوس کر رہے ہیں تو انکو بچانے کی کتنی کوشش کر رہےہیں، کہیں مزید تیل چھڑک کر بھڑکا تو نہیں رہے؟ ہم نے بےدینی کی آگ بجھانے کی ادنی سی بھی کوشش کی ؟ ہم نے بیوی بچے اور خاندان سے ہمدردی کر کے عقائد اعمال فرائض کی اہمیت سے آگاہ کیا؟کیا انہیں گناہوں کی سزا بتائی ؟مرنے کے بعد کے حالات کیطرف توجہ مبذول کرائی ؟چلو گھر والوں کا معاملہ بعد کاخود بےدینی کی آگ سے بچایا؟سینکڑوں گناہوں سے کوئی ایک گناہ خدا کے خوف سے چھوڑا؟بیسیوں فرائض سے کسی ایک فرض کی پابندی کی؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو پھر ہم یہ آگ بجھانا ہی نہیں چاہتے. بے دینی کاشکوہ محض بہانہ ہے.
اس سلسلے میں ہمارا فریضہ یہ کہ اپنی طاقت کے مطابق اصلاح کی کوشش کریں .کتنے گناہ آسانی سے چھوڑے جا سکتے ہیں کتنے گناہوں کو چھوڑنے میں دشواری ہے؟جو گناہ آسانی سے چھوڑے جا سکتے ہیں کم از کم انہیں تو چھوڑ دیں یا کم از کم استغفار تو کرتے رہیں اور ان گناہوں سے بچنے کی دعا تو کرتے رہیں. اگر سو گناہوں کو بیک وقت نہیں چھوڑ سکتا تو ان میں آسان گناہوں کا انتخاب کر کے چھوڑ دے. اگر دن بھر پچاس جگہوں پر جھوٹ بولتا ہے تو کم از کم دس مقام پر جھوٹ چھوڑ دے. اگر ہزاروں رشوت لیتا تو اب کم کرتا جائے. اگر پانچوں نمازیں نہیں پڑھتا تو جو آسان تر ہیں یا کم ازکم فرائض ہی پڑھ لے باقی کیلیے دعا واستغفار کرتا رہے.
