انقرہ سے استنبول اور وہاں سے اٹلی تحریر :قمرؔریاض

میری عادت ہے سفر ہو یا شاپنگ مالز یا مارکیٹس میں بلاوجہ ادھر سے ادھر نظریں نہیں دوڑاتا لیکن اگر کوئی اچانک خوبصورت چہرہ سامنے آ جائے تو سبحان اللہ اور ما شا ء اللہ کہہ کر بس دیکھ لیتا ہوں البتہ کبھی انشاء اللہ نہیں پڑھی –

انقرہ سے استنبول واپس آتے ہوئے میرے ساتھ ایک خوبصورت لڑکی نے سفر کیا جو شائد ترکش تھی میں خوش ہوا کہ اتنے عرصے سے ہوائی سفر کر رہا ہوں بابائے سفر نامہ جات جناب مستنصر حسین تارڑ کے سفرناموں میں جس طرح کوئی خوشگوار حادثہ یا واقعہ ہوتا ہے ویسا کبھی نہیں ہوا تو شائد بالآخر وہ دن آ گیا تھا لیکن میں نے کن انکھیوں سے اس کے موبائل کی طرف دیکھا تو وہاں وٹس ایپ اسکرین پر کسی ہینڈسم لڑکے کی فوٹو لگی تھی اور وہ اس سے مسکرا کر چیٹنگ کر رہی تھی میں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا اور دل ہی دل میں کہا

بل بتوڑی جئی نہ ہوئے تے

پہلی بار تارڑ صاحب کے سفرناموں کی کہانیوں پر سے یقین اٹھنے لگا ۔

جب فلائٹ اتری اور وہ جانے لگی تو پتہ نہیں اسے کیا خیال آیا اس نے مجھے اپنے بیگ سے برگر نکال کر دیا اور پوچھا do you want میں نے بے رخی سے انکار کر دیا آخر مرد کی مضبوطی بھی کوئی چیز ہوتی ہے ۔

استنبول سے مجھے فرینکفرٹ اور پھر اٹلی کے شہر ویرونا جانا تھا جہاں دنیا کی سب سے بڑی ماربل کی نمائش میری منتظر تھی ۔

انسان سفر سے تجربہ حاصل کرتا ہے سیکھتا ہے اور یہ سفر اگر دوسرے کسی ملک کا ہو جہاں کی آپ زبان نہیں جانتے جہاں کے لوگ آپ جیسے نہیں ان کا لباس رہن سہن اور خوراک سب الگ ہے تو سیکھنے کے لئے آپ کے آگے ایک جہان ہوتا ہے وہ الگ بات کے بعض اوقات ایسی صورتحال بنتی ہے کہ اشاروں سے بات سمجھانی اور سمجھنی پڑتی ہے یا پھر گوگل زندہ باد اس سے دو طرفہ لکھ کر یا بول کر ترجمے کے ساتھ بات سمجھائی جا سکتی ہے

گزشتہ دس دنوں سے میں پہلے ترکی پھر یورپ اور پھر ترکی میں رہا فی الحال یورپ کی بات کر رہا ہوں یہاں سے بھی سیکھنے کو بہت کچھ سیکھنے کو ملا سب سے پہلا سبق تو یہ کہ جس ملک جاو اس ملک کی کرنسی اپنے ملک سے تبدیل کروا کر جاو میں نے ڈالر تبدیل کروائے میرا خیال تھا کہ یورپ میں تو ڈالر بھی چلیں گے لیکن میرا خیال غلط تھا وہاں ڈالر کو اس طرح گھاس نہیں ڈالتے جس طرح پاکستان میں اس کے پیر پڑتے ہیں اٹلی سے میں نے 300 ڈالر تبدیل کروائے تو 250 یورو ملے حالانکہ ریٹ کے مطابق یہ 300 سے اوپر ملنے چاہیے جبکہ ترکی میں ایسا نہیں عمانی ریال 100 تبدیل کروائے تو کم و بیش اتنے ہی ملے جتنے حساب سے ملنے چاہیے تھے اس لحاظ سے ترک اچھے ہیں یورپی لوگ ڈالر کو کوئی اہمیت نہیں دیتے بلکہ اکثر علاقوں میں تو وصول ہی نہیں کرتے اسی طرح ترکی میں بھی سوائے استنبول کے پوش علاقوں اور بنکوں یا منی ایکسچینج کے علاوہ کہیں کوئی ڈالرز لینے کو تیار نہیں ہوتا –

جب اٹلی پہنچا تو معلوم ہوا بیشتر لوگ انگریزی تک نہیں جانتے ٹیکسی والوں کو بھی ایڈریس موبائل پر لکھ کر سمجھانا پڑتا ہے یہی حال ترکی کے علاقوں کا بھی ہے جبکہ ہمارے ہاں انگریزی جمتے بچے کے کانوں میں پہلے دن سے ڈال دی جاتی ہے جیسے کہ how cute baby یا پھر waooo so beautiful یا پھر O my God same like father اور کچھ نہیں تو بے بی کتنا پیارا ہے اس میں baby انگریزی کا لفظ ہے اور ایک بات دیکھنے کو ملی آپ کسی ٹرین اسٹیشن سے یا ائرپورٹ سے اتریں ٹیکسی کے انتظار میں آدھا گھنٹہ پونا گھنٹا پار ہے ویرونا ائرپورٹ پر اتر کر مجھے کم و بیش آدھا گھنٹہ انتظار کرنا پڑا اور لاہور ائیرپورٹ ٹیکسیوں کی اتنی بھرمار ہوتی ہے کہ مسافروں کا بیگ چھینتے ہیں کہ سر آپ بس یہ بتائیں کہ جانا کدھر ہے ادھر آئیں ٹیکسی تیار ہے

یورپ میں ٹیکسیوں کے کرائے تو پوچھیں ہی مت میں نے اپنے ہوٹل سے 36 منٹ کی دوری پر کرایہ کوئی104 یورو ادا کیا یعنی کوئی بیس ہزار سے زائد دل ہی دل میں جتنی گالیاں یاد دی دے ڈالی اور اگلی بار ٹرام اور ٹرین کا سفر کیا جس کا کرایہ بہت کم ہوتا ہے مگر پھر بھی اتنا ہوتا ہے کہ لاہور سے علی پور چٹھہ اور پھر واپس لاہور تک میری گاڑی کا پٹرول آ سکتا ہے جس میں 3 گھنٹے سفر ہو سکے –

اسی طرح کھانوں کی تو پوچھیں ہی مت یورپ میں کھانا سوچ سمجھ کر کھاتا رہا مجال ہے گوشت کی کسی چیز کو ہاتھ تک لگایا ہو یا کھائی ہو کہ کہیں سور کی بوٹی ہی نہ نکل آئے ۔

جب گزشتہ تین سال پہلے میں اٹلی آیا تو میرے ساتھ اردن کے ملک کا میرا دوست عبادی بھی ساتھ تھا ہم ماربل کی نمائش کے لئے چار دن ویرونا اور نمائش کے اختتام کے بعد گھومتے پھرتے رہے کبھی روم کبھی وینس تو ہم دونوں سبزیوں والے پیزے اور پاستے کھا کھا کر تنگ آ چکے تھے کہ بازار میں ایک جگہ دکان میں ہم نے پوری کی پوری مرغی مشین میں روسٹ ہوتے دیکھی عبادی کہنے لگا آج تو مرغی ہی کھانی ہے ہم نے مرغی لی اور گھر لے آئے مگر مجھے اچانک ایک خیال آیا اور میں نے عبادی سے کہا میرے بھائی تم تو بہت پرہیز گار ہو سفر میں بھی نمازیں پڑھتے رہے ہو کیا کر رہے ہو پتہ نہیں انہوں نے مرغی حلال بھی کی ہے کہ نہیں کہنے لگا ایک منٹ ٹھہرو اور اس نے روسٹ مرغی کو شاپر سے نکالا وہ پوری اور ثابت مرغی تھی جس کی گردن تک ساتھ موجود تھی اس نے دونوں ہاتھوں میں اس مرغی کی گردن پکڑی اور اونچی آواز میں پڑھا بسم اللہ الرحمن الرحیم ، اللہ اکبر اور کڑچ کر کے مرغی کی گردن توڑ دی اور مجھے کہنے لگا برادر قمر now you can eat ایسے مرغی حلال ہوتے میں نے پہلی بار دیکھی تھی ۔

اس بار سفر میں میرے پاس صرف دو دن تھے لہذا ماربل کی نمائش دیکھی جن سے ملنا تھا ملے پراجیکٹ کے حوالے سے جو میٹینگز اور ماربل سیمپلز ضروری تھے وہ حاصل کئے میلان شہر تھوڑا گھوما اور اس پرانے چرچ بھی گیا جو ماربل میں تعمیر کے حوالے سے شاہکار ہے وہاں ماربل میں مختلیف مجسمے بنا کر لگائے گئے ہیں اور مجمسوں کی شکل میں کہانیاں بیان کی گئی ہیں آپ مجسموں کی شکل میں تصویریں سمجھ لیں کہیں ننگی کہیں پوری کہیں تلوار سے سر دھڑ سے الگ کر کے سر ہاتھ میں پکڑا ہوا اور کہیں دو مرد ایک دوسرے سے گھتم گھتا ہیں اور کہیں خواتین بیٹھے کوئی کام کر رہی ہیں کہیں کوئی پادری بڑی سی کتاب کھولے بیٹھا ہے یہ چرچ کیا تھا کہانیوں بھری کتاب تھی جو دومو کے نام سے مشہور سے یہ غالبا ساڑھے تین سو سالوں میں تیار ہوا اپنی طرز تعمیر میں یہ ایک شاہکار ہے سچ تو یہ ہے کہ ماربل کے حوالے سے اٹلی مکمل شاہکار ہے ریلوے اسٹیشن سے لے کر عام بنک بلڈنگوں تک پتھر کا اتنا خوبصورت کام کیا گیا ہے انسان دنگ رہ جاتا ہے اور پرانی عمارتوں کو دیکھ کر تو حیرت ہوتی ہے کہ صدیوں پہلے مشینوں کے بغیر ماربل کے پتھروں کی کس طرح گولائیاں بنائی گئی اور کس طرح ان پر نقش بنائے گے 3D کا کام کس طرح کیا گیا مجسمے کیسے بنائے گئے شائد ماضی کا انسان ٹیکنالوجی کے بغیر بھی اتنا ہی طاقتور اور عقل مند تھا جتنا آج نئی ٹیکنالوجی کے ساتھ ہے –

اٹلی میں کاروباری شخصیت میرے ہم نام قمر ریاض خان کی بھی کال آئی کہ میرے ہاں تشریف لائیں میرا اپنا بھی دل تھا ملنے کے لئے مگر وقت کی کمی کی وجہ سے اگلی بار آنے کا وعدہ کیا اور اٹلی ابھی حال میں نئے تعینات ہوں والے سفیر علی جاوید ہیں جو پہلے عمان میں سفیر رہے بہت ہی شاندار شخصیت ہیں میری ان سے عمان میں بہت قربت رہی ان سے بھی اگلی بار اٹلی ملاقات رہے گی انہیں بھی بتایا تو بہت خوش ہوئے اور کہا کہ ضرور میرے پاس آو ابھی انہوں نے باقاعدہ چارج اس ہفتے لینا تھا –

آخری دن واپسی سے پہلے طارق بھائی کے ریستوران پر دیسی کھانا کھایا کئی دنوں کی بھوک مٹائی انہوں نے بتایا کہ کس طرح ٹیکسز کی بھرمار ہے اور جتنا کماتے ہیں اس سے 50 % تو ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں کمپنی بنانا آسان ہے اصل معاملہ ٹیکس کی ادائیگی ہے اور ہمارے ہاں حکومت زیادہ ٹیکس لگائے تو حکومت چلی جاتی ہے ان کے تین گھر وہاں ذاتی ہیں یعنی یورپ کاروباری کمائی کے لحاظ سے بہت اچھا ہے – البتہ کام کرنے کا طریقہ آنا چاہیئے –

اپنا کام ختم کیا اور واپسی کی راہ لیتے ہوئے استنبول جانے کے لئے میلان ائرپورٹ پر پہنچا تو حیرت انگیز طور پر داخل ہوتے ہی بڑے بڑے ڈیجیٹل بینرز پر ائیرپورٹ کے اندر ایک بوڑھی خاتون کو پیٹھ سمیت پیچھے سے ننگا اور ایک کالی کلوٹی عورت کو سامنے سے ننگی آویزاں دیکھا جسے پر آتے جاتے ہر مسافر کی نظر پڑتی تھی زیادہ غور کرنے پر معلوم ہوا کسی کمپنی کے برینڈ کی مشہوری ہے توبہ استغفراللہ پڑھی انا للہ بھی ساتھ ہی پڑھ دی اور جہاز میں آ کر بیٹھ گیا یہاں میرے ساتھ اس بار ایک کالا کلوٹا (گورا ) بیٹھا ہوا تھا ۔

یہاں سے اگلا سفر استنبول سے انقرہ ہے جہاں ہمارے عمان سے متعلقہ ایک پراجیکٹ کا کنسلٹنٹ میرا منتظر ہے ابھی ترکی میں چار دنوں کا سفر باقی ہے ۔

( جاری ہے )

Leave a Reply