قصہ ایک کتاب کی رونمای اور ہمارا اپنے ہی قتل سے بال بال بچنا تحریر ؛ مسعود احمد

قصہ ایک کتاب کی رونمای اور ہمارا اپنے ہی قتل سے بال بال بچنا تحریر ؛ مسعود احمد

شاعری اور نشہ لگنے کی کوی عمر نہیں ہوتی کسی عمر میں بھی لگ سکتا ہے دل کا عارضہ تو ہر شاعر کو پیدائشی ہوتا ہے ہمیں شاعری کا روگ لڑکپن سے ہی لگ گیا ابا جی حساب کے استاد تھے اس لیے معاملات کو حساب کی نظر سے دیکھتے اولا د کے بارے میں انکا مطمع۔نظر یہی تھا کہ بچے پڑھ لکھ کر کہیں بابو ہو جاییں انکی شادیاں کر دی جاییں اور ذمہ۔داریوں سے فارغ ہو جاییں مگر ہم کالج کیا پہنچے ایک کلاس فیلو۔بدر کے ہتھے چڑھ گئے وہ بقول عدم بڑا منجھا ہوا ذوق گناہ رکھتا تھا شاعری کے نئے نئے دن ابا محترم شاعری کو خرا فات سمجھتے تھے دوسرا اولاد کی تربیت کے معاملے میں وہ اس آ دھے محاورے پر عمل کرتے ویکھو شیر دی اکھ نال مگر ہونی ہوکر رہتی ہے اسلم کولسری صاحب سے ملاقات۔ہوی تو انہوں نے شفقت بھرا ھاتھ سر پہ رکھا وگرنہ آ جکل کے استادوں کا ہاتھ شفقت چیمے۔

جیسا ہوتا ہے اوکاڑہ ظفر اقبال صاحب کی وجہ سے جدید شاعری کا دارالحکومت ٹھہرا ظفر صاحب نے انتہائی محبت فرمای ایک۔دو کالم ہم پر کھڑکا دیے لوکل مشاعروں میں آ نا جانا شروع کیا کالج کے دنوں ہم اپنے ایک دوست افضل جو اب خیر سے ڈاکٹر افضل ہیں کہ ہمراہ ایک بزرگ شاعر کے دولت کدے پر حاضر ہوے بزرگ خوش ہوے انہوں نے دو تین مہا پرانے رجسٹر نکالے اور شاعری سنانی شروع کردی جسے سن کر موغیمبو نے کیا خوش ہونا تھا ساتھ فرمانے لگے یہ شاعری میں نے سن1936میں شملہ میں کی اور یہ کچھ دیر بعد او ٹی میں ہم نے نہایت لجاجت سے عرض کیا آ پکا اصل کمال یہی ہے آ پکی شاعری اب بھی 1936میں ہی ہے انہوں نے جواب دیا آ پکی نوازش ہے تب ہم پر شیخ سعدی کی یہ حکایت پوری طرح کھلی۔کہ۔بزرگی کا تعلق عقل سے ہے عمر سے نہیں انہیں دنوں چھ ستمبر کے حوالے سے ایک مشاعرہ تھا جہاں موصوف نے یوم دفاع کے حوالے سے ایک طویل نظم شروع کی جسے اتنے ہی انہماک سے سنا گیا جیسے اسمبلی میں بجٹ سنا جاتا ہے نظم کے لمبے دورانیے میں شورو غل کے درمیان ایک منچلا اٹھا اس نے بزرگوار کے سامنے ہاتھ باندھ۔

کر عرض کی بابا جی جان دیو ایڈی وڈی تے جنگ وی نییں سی ہم یہ بتانا تو بھول ہی گیے کہ ان واقعات کے دوران ہم بینک میں نوکر ہوگے گھریلو پا بندیوں سے آزاد ان دنوں مشاعرے تو مقامی سطح پر چھوٹے موٹے ہی ہوتے مگر زندہ دلان اوکاڑہ کے سامنے مشاعرہ پڑھنا پرتھ کی وکٹ پر کھیلنے کے مترادف تھا شاعر ہر مشاعرہ کے بعد اگلی دفعہ مشاعرہ پڑنے سے توبہ تائب ہوتے مگر اگلے دن کو جھوٹے منہ بھی بلاتا تو پہنچ جاتے کتابیں آ جکل کی طرح دھڑا دھڑ تو نہیں مگر چھپتی ضرور تھیں انہیں دنوں ان بزرگوں کی کتاب بھی منظر عام پر آ گی بقول شخصے سعادت مند بیٹے نے اپنی موٹر سائیکل بیچ کر کتاب کی اشاعت کو ممکن بنایا شام اسلم صاحب کے پاس انور عابر صاحب کے ہوٹل ڈیسنٹ ہای ویز جو اسلم کا مستقل ڈیرہ تھا حاضری دی تو وھاں بیٹھنے والے تنومند بھا یاسین نے اسلم صاحب سے استفسار کیا کتاب کے لیے انہوں نے موٹر سائیکل تو بیچ دی اب آ یا جایا یہ کتاب پر کریں گے ظاہر ہے اسلم صاحب کے پاس سوائے مسکرانے کہ کوی جواب نہیں تھا انہیں دنوں ہم ساہیوال روڈ برانچ میں مینجر تھے سنا کہ اس کتاب کی رونمائی ہے جسکی صدارت سپیکر پنجاب اسمبلی میاں منظور وٹو فرماییں گے ملکی پریس اور پی ٹی وی کی ٹیم بھی ہوگی جوانی کے دن تھے طبعیت للچانے لگی قدرت خدا کی شاعر موصوف ہمراہ دعوت نامہ تشریف لاے ساتھ مضمون پڑھنے کی فرمائش داغ دی ہم نے سوچا سرکار دربار کی نظروں میں آ نے کے لیے کچھ شگوفے اور چٹکلے چھوڑ دیں گے مگر اگلے دن شاعر موصوف کے منجھلے صاحب زادے تشریف لے آ ے کہ بھای جان مضمون لکھ کر پڑھنے سے پہلے ذرا دکھا لیجیے گا ایک دفعہ بڑے بھائی سے غصے میں تین قتل ہوگئے تھے ہم نے فوراً سے پہلے مضمون پڑھنے سے معذرت کرلی اور عرض کیا بھائی صاحب سپیکر کے سامنے مضمون پڑہتے ہوے وڈیو کے لالچ میں بھری جوانی میں قتل ہونا کہاں کی عقلمندی ہے اور یوں ہم قتل ہونے سے بال بال بچ گیے

Leave a Reply