آ لو کا آ دھا پراٹھا اور ھماری صدارت تحریر : مسعود احمد

آ لو کا آ دھا پراٹھا اور ھماری صدارت تحریر : مسعود احمد

انجم سلیمی والے کالم پر معروف ناول نگار افسانہ نویس شاعر نقاد اور جانے کیا کیا کچھ عزیزی علی اکبر ناطق کے کومنٹس پڑھ کے پرانا قصہ یاد آ گیا علی اکبر ناطق کا تعلق بھی شہر ظفر اقبال سے ہے شہر دار ہونے کہ ناطے ہماری اس راہ رسم پرانی ہے نظم اور افسانہ اس وقت بھی یہ اتنا ہی زور دار کہتا تھا جب کمپنی کی اتنی مشہوری نہیں ہوی تھا افسانہ کے ساتھ بھی کہتا لگانا اس لیے ضروری ہے کہ ہماری دانست میں اس کے افسانے بھی کہے ہوے ہی ہیں ھمیں اس بات کی بھی خوشی ہے کہ اس کے بڑا ادیب ہونے پر سب سے پہلے ایمان لانے والوں میں میں اور اس کا۔کلاس فیلو لالہ احمد شہزاد تھے ناطق جب بھی اسلام آ باد سے آ تا ہماری منڈلی کبھی برانچ میں یا پھر گھر میں جم۔جاتی علم وادب پر گفتگو کے علاوہ معاشرتی ادب آ داب کے تحت جی بھر کے گلے کیے جاتے یہ گلے کسی مخصوص فرد یا گروہ کے نہیں جو بھی ہاتھ لگ جاے اور ایسی محفلوں میں وقت کا بالکل پتہ نہ چلتا بس تھوڑے تھوڑے وقفے سے گڑ والی چاے یا آ لو کے پراٹھے

ناطق کی حثیت گھر کے فرد جیسی ہے
ایک دن میاں ناطق سردیوں کی ہلکی ہلکی دھوپ میں وارد ہوا ہم اس وقت
آ لو کا پراٹھا۔کھا رہے تھے ناطق نے کہا یہ انصاف نہیں ہم نے کہا بھی ذرا انتظار کرو تمہارے لیے بھی منگواتے ہیں مگر حضرت نے کہا یہی لینا ہے پراٹھا آ دھا رہ گیا تھا جو ناطق نذر کردیا ساتھ گڑ والی چاے۔بنوای چاے کی چسکیاں لیتے ہوے ناطق نے کہا کہ آ ج شام اوکاڑہ میں معروف شاعر اور ٹی وی پروڈیوسر ایوب۔خاور آ رھے ہیں انکے ساتھ ایک نشست ہے جس کی صدارت آ پ نے کرنی ہے ہم نے لاکھ کہا میاں تم بھلے عمر میں ہم سے چھوٹے ہو مگر ادیب اور شاعر بہت بڑے ہو صدارت تم کرو ہم حاضری دے دیں گے وہ ناطق ہی کیا جو دوسروں کو بولنے دے اس نے ہماری بات سنی ان سنی کردی ہم نے جگہ پو چھی تو وہ ایک مقامی بیوروکریٹ کا بنگلہ تھی وہ افسر تھے تو افسر مگر حرکات و سکنات سے پتہ نہیں چلنے دیتے تھے کہ سادہ لوح ہیں یا احمق جیسے کہتے ہیں مزاح اور پھکڑ پن میں خفیف سا ہی فرق ہوتا ہے ایک اور خوبی تھی ان میں کہ وہ ذرا ہوا نہیں لگنے دیتے تھے

وہ زیادہ برے شاعر ہیں یا گلوکار البتہ ان کے سائلین انہیں یہی باور کرواتے کہ ان جیسا شاعر اور گلوکار پاکستان ہندوستان میں کہیں نہیں اور جو لوگ اس حقیقت سے انحراف کرتے ہیں وہ آ پکی روز افزوں بڑھتی ہوئی قدر ومنزلت سے ڈرتے ہیں ایک دو دفعہ اس مسلے کا حل سوچا کہ ان کا کلام انہی کی آ واز میں ریکارڈ کرواکے ان کی سمعہ خراشی کا اہتمام کیا جاے مگر بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھتا تاوقتیکہ وہ ریٹائر نہ ہو جاتی خیر ناطق اور ایوب خاور صاحب انکے بنگلہ پہنچ گیے ہم بھی انکے خوبصورت ڈرائنگ روم تک جا پہنچے تھوڑی بہت رسمی گفتگو کے بعد ناطق نے نظامت سنبھال لی اور ہماری صدارت کا اعلان کردیا یہ صاحب خانہ کے لیے انتہائی غیر متوقع تھا ایک وہ میزبان دوسرے بڑے سرکاری افسر اندر خانے ان کا اضطراب ایسا تھا کہ پاکستان کے ایٹمی دھماکوں کے بعد انڈین راشٹر بھون میں بھی ایسا کیا ہوگا مختصر نشست تھی ایوب خاور انہی دنوں جموں کشمیر سے ہوکر آ ے تھے انہوں خوبصورت نظمین اور منفرد لہجے کی غزلیں سنائیں ناطق نظم بھی بڑے کمال کی تھی اب صدارتی خطبہ میں ایسے لوگوں کی موجودگی میں ہمارا حال بھی اسی سرکاری افسر۔سا تھا ہم نے ابتدائیہ آ لو والے پراٹھے سے شروع کیا کہ ہمارے پاس بھی یوسف خریدنے والی مای کی طرح کسمپرسی کے سوا کچھ نہ تھا ہم نے آ لو کے آ دھے پراٹھے کے عوض آ ج کی صدارت ہتھیا لی ہم تو یہ خطبہ دیکر سرکاری۔بنگلے سے نکل آ ے مگر ناطق کو خاصی دیر اس افسر عالی جاہ کا عذاب بھگتنا پڑا بقول ناطق وہ اس گفتگو سے لطف لینے کی بجائے یہی فرماتے رہے آ دھے پراٹھے پر صدارت قربان کرنے کی بجاے ایک دفعہ حکم کرتے تو افسر موصوف پراٹھوں کے ڈھیر لگا دیتے

Leave a Reply