گدھا: ایک خر دماغ جانور ہے جو عقلمند بننے کی کوشش بہت کرتا ہے لیکن ناکام رہتا ہے یا وہ اسے الٹی پڑ جاتی ہے۔
ایک تاجر شہر سے اپنے گدھے پر نمک لایا کرتا تھا، راستے میں ایک ندی آتی تھی اسے پار کرتے وقت گدھا
اس میں اس وقت تک بیٹھا رہتا جب تک نمک پانی میں گھل کے وزن آدھا نہ رہ جاتا، تاجر بھی اس کی اس چالاکی کو سمجھ گیا چنانچہ ایک بار
اس پر رویئی لاد کر لا رہا تھا گدھا حسب عادت ندی میں بیٹھ گیا، لیکن جب وہ اٹھا تو روئی کا وزن کئی گنا بڑھ چکا تھا۔
لندن میں قبر کے کتبے پہ لکھا تھا یہ اس گدھے کی قبر ہے جس نے جنگ عظیم دوم میں بے پناہ خدمات سر انجام دیں دولتی جڑنے کی عادت تھی لہذا ایک آخری دولتی
بم کو دے ماری تھی۔
بکرا: اس کی ماں ہر وقت خیر مناتی ہے لیکن بالآخر یہ ذبح ہو کر ہی دم لیتا ہے۔ قربانی کا بکرا کسی کو بھی بنایا جا سکتا ہے حالانکہ اس کا کوئی قصور بھی نہئں ہوتا۔
ایک شخص اپنا قربانی کا بکرا گلی میں زنجیر سے باندھ کر خود سو گیا صبح اٹھا تو کوئی ستم ظریف اس کی کھال اتار کے لے گیا تھا۔
بھیڑ: چلتی ہے تو صرف بھیڑ چال چلتی ہے۔ اس کا گوشت کھانے کے اور کھال اتارنے کے کام آتی ہے۔
اسے چرانے والے کو گڈریا کہتے ہیں جس عنوان سے اشفاق احمد بہت شوق سے لکھا کرتے تھے۔ ہر ریوڑ کے ساتھ ایک کتا ہوتا ہے بھیڑ، بکریاں اکٹھے چرائی جاتی ہیں۔ کہتے ہیں ہمارے ایک وزیر
حیوانات آسٹریلیا گئے وہاں بھیڑ بکریوں کے ایک فارم کا معائنہ بھی کیا اس سے بہت متاثر ہوئے اور مالک سے اس کی تعریف بھی کی۔
فارم کے مالک نے خوش ہو کر وزیر سے کہا اپنی پسند کا کوئی بکرا تحفے کے طور پر لے جائیں
وزیر نے ایک بکرا اٹھا کہ ڈگی میں ڈال لیا،رخصت ہونے سے پہلے مالک نے کہا آپ کے وزٹ کا بہت شکریہ لیکن جانے سے پہلے ڈگی سے میرا کتا نکال دیں۔