اسلام اور عورت مارچ : سیف اللہ سیف

آٹھ مارچ کو خواتین کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن خواتین کے حقوق کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ریلیز ، سیمنار اور پروگرامز منعقد کۓ جاتے ہیں دور حاظر اور ماضی میں عورت کے کردار پر روشنی ڈالتے ہیں

August Bell نے لکھا ہے:
قدیم دور میں عورت کی حیثیت انتہائی درجہ کے استبداد سے دوچار تھی۔ اسے جسمانی طورپر مغلوب کرکے قبضے میں رکھاجاتا اور ذہنی طورپراس سے بھی زیادہ ظلم روارکھا جاتا تھا ۔خانگی معاملات میں اس کی حیثیت نوکروں سے صرف ایک درجہ بہترتھی ۔اس کے اپنے بیٹے اس کے آقا ہوتے تھے جن کی فرمانبرداری اس پر لازم تھی۔
سقراط نے عورت کے بارے میں اپنا فلسفہ کچھ اس انداز سے پیش کیا کہ عورت سے زیادہ فتنہ و فساد کی چیز دنیا میں کوئی نہیں وہ دفلی کا درخت ہے کہ بظاہر بہت خوبصورت معلوم ہوتا ہے لیکن اگر چڑیا اُس کو کھا لیتی ہے تو وہ مر جاتی ہے۔

اہل یونان عورت کو تمام انسانیت کے مصائب کی جڑ تصور کرتے، رومی تہذیب میں عورتیں اپنی عمر کا حساب اپنے شوہروں کی تعداد سے کرتیں، فلور کھیل میں عورتوں کوبرہنہ حالت میں دوڑ کا مقابلہ کروایا جاتا۔

فیشن کے نام پر عریانیت اور برہنہ پن کو عام کردیا گیا، شرم و لحاظ اور ادب و آداب کو Old mentality کہا جانے لگا۔
نکاح کر کے باعزت زندگی گزارنے کے بجائے free relationship اور live toghether جیسی برائی کو عام کردیا گیا اور بوائے فرینڈ وگرل فرینڈ بنانا اب کوئی عیب نہ رہا، جنسی ہیجان کو فروغ دینا اب آرٹ ہے، اور فحاشی سے پُر فلمیں، سانگ البم، لٹریچر,نائٹ کلب، لَو گرو وغیرہ کو بڑھاوا دیا جارہا جسے تفریحات اور انٹر ٹینمنٹ کا نام دیا گیا ہے۔
ضبط ولادت اور قتل اولاد جیسی انسانیت سوز حرکتوں کو عورت کی مرضی کا نام دے کر گھریلو نظام زندگی کو تباہ و برباد کردیا گیا۔

طلوعِ اسلام سے قبل عرب سماج میں عورت کا مقدر ذلت اور پستی تھا۔ اس کی حیثیت ایک ارزاں شئے جیسی تھی۔ظلم اورجبرکا یہ عالم تھا کہ کم سنی میں اس کی زندگی کا چرا غ بجھادیاجاتا تھا ۔ بیٹی کے روپ میں باپ کے لیے اس کا وجود باعث ِ عارہواکرتا تھا۔ جس کو چھپانے کے لیے عورت کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ حتی کہ سوتیلی ماں سے شادی رچانے اور اپنی بیوی کو خاص مدت تک دوسروں کو کرایہ پردینے کی رسم بھی تھی۔

لیکن جب اسلام کا ابرِ رحمت برسا توعورت کی حیثیت یکسرتبدیل ہو گئی۔ عورتوں کو ظلم، بے حیائی، رسوائی اور تباہی کے گڑھے سے نکالا ، اور انہیں تحفظ بخشا ۔ ان کے حقوق اجاگر کیے۔ ماں،بہن ، بیوی اور بیٹی کی حیثیت سےان کےفرائض بتلائے اورانہیں شمع خانہ بناکر عزت واحترام کی سب سےاونچی مسند پر فائز کرنے کے ساتھ مزید احسانات سے بھی نوازا۔
اسلام نے خاوند کی محبت کو عورت کا حق قرار دیا اور اس نے بےوفائی پر خاوند کو رجم کی سزا سنائی، خاوند کو دوسری شادی کی اجازت پہلی بیوی کی حق تلفی نہ کرنے کی شرط پر دی ، بصورت دیگر قیامت کے دن خاوند کو فالج زدہ اٹھائے جانے کی وعید سنائی۔ طلاق دینے پر حق مہر کو بیوی کا متاع قرار دیا ،خواہ وہ ایک قنطار 150 کلو سونا یا چاندی ہی کیوں نہ ہو۔ عورت کو وراثت کا حقدار ٹھہرایا اور یہ حق مارنے والے کو اللہ کا مجرم قرار دیا۔ بے وجہ بیوی کو مارپیٹ کرنے پر خاوند کو بہترین خاوند کے درجے سے محروم قرار دیا۔چار ماہ تک بیوی سے لاتعلق رہنے والے کو بزور صلح پر مجبور کرنے یا بیوی کو باعزت علیحدہ کرنے کا حکم دیا۔

اسلام نےعورت کو گھر کی ملکہ بنایا ،یورپ نے اسے سربازار رسوا کیا ۔ اسلام نے ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کی حیثیت سے تقدس دیا، یورپ نے انسانیت کی تمام حدود پھلانگتے ہوئے زنا ، بدکاری اور بے راہ روی کی بدترین بنیادوں پر معاشرہ تباہ کیا۔ اسلام نے پردہ کےاحکامات کے ذریعے عفت وعصمت کے آبگینے کی حفاظت کا اہتمام کیا جبکہ یورپ نےسوشل میڈیا،ٹیوٹر، فیس بک،انسٹاگرام،یوٹیوب جیسے شیطانی جال بچھا کر عفت مآب خاندانوں کو ذلت آمیز انجام سےدو چار کیا۔ مخلوط تعلیم دلوا کر آشناؤں کے ساتھ فرار کے راستے دکھائے اور پھر جب آشنا اپنی ہوس پوری کرلیتے ہیں تو اسی عورت جس سے وہ آسمان سے تارے توڑ لانے کے وعدہ دلاتے تھے ، کو ٹیشو پیپر سے بھی کمتر سمجھتے ہوئے گٹر کی نذر کر دیتا ہے اور نتیجہ کہیں خود کشی کی صورت میں سامنے آتا ہے، کہیں عورت کو ٹھڈے مارے جاتے ہیں تو کہیں کوئی حاملہ ہونے پر ہسپتال میں بے یارومددگار چھوڑ کر بھاگ جاتا ہے۔
مغرب میں بسنے والی مسلمان عورت کتاب وسنت کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کے لیے اپنے پردے اور حجاب کے دفاع میں صدائیں بلند کررہی ہے اور موجودہ دور میں مشرقی عورت کی بے حسی اس قدر بڑھ چکی ہےکہ بعض اخلاق باختہ عورتیں اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور دین اسلام سے بغاوت کرتے ہوئے میرا جسم میری مرضی کا شرمناک ایجنڈا آگے بڑھانے میں مصروف ہیں۔
جوعورت ایک آزاد مملکت اور پرامن فضا میں رہتے ہوئے بھی
آزادی،
میرا جسم میری مرضی،
کھانا خود گرم کرو،
یہ چار دیواری یہ چادر گلی سڑی لاش کو مبارک،
میرے انکار میں اقرار مت ڈھونڈو،
میں بچہ پیدا کرنے کی مشین نہیں،
اگر دوپٹہ پسند ہے تو آنکھوں پے باندھ لو
کے علاوہ غلیظ اور فحش نعرے لگائے تو سمجھو وہ بے حیا ہونا چاہتی ہے اور حقیقت میں بھی
“میں آوارہ میں چلن”
کی مصداق بننے کی خواہش مند ہے۔
جو پیدا ہوتے ہی زمین میں گاڑھ دی جاتی تھی وہ دور دوراں میں خود زندگی دینے والے اسلام سے آزادی چاہتی ہے۔
یورپ نے عورت کی فطری نزاکتوں کو اسلام کےخلاف اس برے طریقے سےاستعمال کیا اوراتنا غلیظ پروپگنڈہ کیا کہ جس عورت کی آواز تک کا پردہ اسلام نے لازمی قراد دیا اور پاؤں پٹخ کر چلنے سے بھی منع کیا دین بیزار لبرل طبقہ نے نہ صرف صنفِ نازک کو ناچ گانوں،سینما،کنسرٹس،سٹیج ڈراموں کی زینت بنا دیا بلکہ کاروباری رغبت کے ڈھونگ رچا کر کال سنٹرز اور استقبالیہ کا لازمی جز بنا دیا۔
جس عورت کو دورانِ سعی تیز چلنے سے رخصت عنایت کی سیکولرز لابی نے اولمپک اور میراتھون میں دوڑا دیا مزید برآں کھیلوں میں جوش وخروش کی زیادتی کے لیے چیئر لیڈرز اورسپانسر شپ دلوا کر طرح طرح کی لغویات کی جانب توجہ مبذول کروانے کی خاطر نیم برہنہ تصاویر اور ویڈیوز بنا کر انہیں سوشل میڈیا وذرائع ابلاغ کے ذریعے غلاظت وفحاشی کا قلاوہ پہنا دیا۔
اسلام نے عورت کو ظلم وجبر، ذلت وحقارت، بدسلوکی، تنگ نظری اورجہالت کے اندھیروں سے نکال کر عفو وکرم، رحمت ومودت، حسن سلوک سے منور کیا، عورت کی عزت واحترام اور وقار وتمکنت سے ہم کنار کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اسلام کے سائے میں عورت کے بارے میں مردوں کا پورا نقطہ نظر اور عملی رویہ بدل گیا اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے بعد خواتین نے ایک نئی تاریخ رقم کی جس کی مثال پہلے کسی بھی مذہب میں موجود نہ تھی اور آج کے نام نہاد ترقی یافتہ دور میں بھی ناپید ہے۔
لہذا اپنے معاشرے کو آشتی کا گہوارہ بنانے، ملک کو استحکام بخشنے اور دنیا کےسامنے خوشگوار تصویر دکھانے کے ساتھ ساتھ آخرت کی بھلائی کی خاطرہماری ماؤں بہنوں کو امہات المؤمنین اور صحابیات کی زندگیوں کو اسوہ بنانے چاہئے نہ کہ مغرب کے ٹکڑوں پر پلنے والی مٹھی بھر عورتوں کو جو صرف فحاشی کو پروموٹ کر رہی ہیں۔ اس لیے ان اخلاق وآداب سے عاری عورتوں سے لاتعلقی اختیار کر کے اپنے گھروں کو حیا وحجاب، اسلامی تہذیب وتمدن اور رہن سہن کی خوشبو سے معطر کریں اور ایسے گلستانِ امن کی آبیاری کریں جو پرامن فضاؤں میں اپنے پھولوں کی مہک مہکائے۔ ایک عورت کے لیے دینِ اسلام نے جو حقوق مقرر کیے ہیں وہ مغرب والے کبھی نہیں دے سکتے۔جہاں خواتین کے ساتھ ظلم یا نا انصافی ہو رہی ہو وہاں بطور معاشرہ ہمیں بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا

Leave a Reply