ایک واقعہ …. 5 سبق
خلفاء راشدین میں سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا دور حکومت ہے ۔ دو آدمی ایک تیسرے شخص کو پکڑے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آئے ۔ اور کہا یا امیر المومنین اس نے ہمارے باپ کو قتل کر دیا ہے ۔ ہم اسے سزا دلانا چاہتے ہیں ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس سے پوچھا کیا تم نے ان کے باپ کو قتل کیا ہے ؟ اس شخص نے جواب دیا اے امیر المؤمنین ان کا باپ اپنے اونٹ سمیت میرے باغ میں آ گیا تھا ۔ میں نے ایک پتھر پھینکا جو ان کے باپ کے سر پر لگا اور وہ وہی فوت ہوگیا۔ میرا ارادہ اسے قتل کرنے کا نہیں تھا ۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ قتل کا بدلہ قتل ہی ہے ۔ فیصلہ سن کر اس قاتل نے کہا یا امیر المومنین میرے گھر والے یہاں سے دور ایک صحرا میں رہتے ہیں ۔ مجھے ان سے ضروری کام ہے ۔ مجھے تین دن کی مہلت دی جائے ۔
جناب حضرت عمرنے فرمایا کہ کون تیری ضمانت دے گا کہ تو صحرا میں جا کر واپس آئے گا ۔
وہ شخص جس کو کوئی جانتا تک نہیں تھا۔ اس کے گھر اور گھر والوں کی تو دور کی بات ہے اسے ہی کوئی نہیں جانتا تھا ۔ اس کی ضمانت کون دیتا ۔
اس شخص کا کہنا تھا کہ اس کا ایک دفعہ گھر جانا ضروری ہے کیونکہ اس کے گھر والوں کا اللہ کے بعد یہی سہارا تھا ۔
مجلس میں موجود سارے صحابہ کرام پر ایک خاموشی چھا گئی ۔ نہ تو اس شخص کی ضمانت دی جاسکتی ہے اور نہ ہی اس شخص کو جانے سے روکا جا سکتا ہے ۔ ورنہ اس کے بیوی بچے بھوک سے مر جاتے ۔
خود حضرت عمر بھی پریشان بیٹھ گئے ۔ لوگوں نے ان دو آدمیوں سے کہا کہ اس شخص کو معاف کر دیں ۔ لیکن وہ بھی معاف کرنے کو تیار نہ تھے ۔ ان کا بھی باپ قتل ہوا تھا ۔ کیسے معاف کر دیتے ؟
اس صورتحال میں اس قاتل نے مجمعے کی طرف دیکھا ۔ اور بلند آواز سے پوچھا اے لوگو تم میں سے کون میری ضمانت دے گا ۔
حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا کہ میں اس شخص کی ضمانت دیتا ہوں ۔ اگر یہ شخص نہ آیا تو اس کی جگہ مجھے قتل کر دیا جائے ۔
محترم جناب حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا کہ ابو ذر کس وجہ سے اس کی ضمانت دے رہے ہو ۔ حضرت ابوذر نے فرمایا مجھے اس کے چہرے پر مومنین کی صفات نظر آرہی ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں
ریاست مدینہ کے اصل نیک حکمران : ضیاءالرحمن لاوہ
وہ شخص چلا گیا اور تین دن گزر گئے ۔ مقررہ دن آگیا ۔ حضرت عمر اور باقی سارا مجمع وہاں پر موجود تھا ۔ اس شخص کا انتظار کر رہا تھا ۔
ہر چہرے پر پریشانی تھی کہ وہ شخص ابھی تک نہیں آیا ۔ اس کے بدلے حضرت ابوذر کو قتل کیا جائے گا ۔
جب حضرت عمر نے حضرت ابوذر سے پوچھا کدھر ہے وہ شخص جس کی آپ نے ضمانت دی تھی ؟ حضرت ابوذر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا ۔ مجھے نہیں معلوم ۔
وقت گزرتا جا رہا تھا ۔ سورج ڈھل رہا تھا ۔ مدینہ کا ہر شخص پریشان تھا کہ حضرت ابوذر کے ساتھ کیا معاملہ ہونے والا ہے ۔
لوگوں کی یہ بے چینی بڑھتی ہی جا رہی تھی کہ ایک طرف سے گردوغبار اڑتا ہوا دکھائی دیا ۔ یہ وہی شخص تھا جو تین دن کی ضمانت پر گیا تھا ۔جب وہ آیا تو مجمعے نے زور سے اللہ اکبر کا نعرہ لگایا ۔
مسلمانوں کے امیر حضرت عمر نے کہا کونسا جذبہ تمہیں واپس لے آیا ہے ۔ اگر تو نہ آتا کوئی نہیں جانتا تھا کہ تو کہاں رہتا ہے اور تو پھر بھی آ گیا ۔
اس شخص نے کہا امیرالمومنین اللہ کی قسم میں اپنے بچوں کو پرندوں کے بچوں کی طرح صحرا میں اکیلا چھوڑ آیا ہوں ۔ جہاں نہ درخت کا سایہ ہے نہ پینے کو پانی ۔
اس آدمی نے کہا وعدہ کیا تھا نبھانے آگیا ہوں ۔ اس نے کہا اگر میں واپس نہ آتا تو پھر مدینہ کے لوگ کبھی کسی اجنبی پر اعتبار نہ کرتے ۔ کوئی کسی اجنبی کی ضمانت نہ دیا کرتا ۔
صحابی رسول صل اللہ علیہ والہ وسلم حضرت ابوذر سے حضرت عمر نے کہا تم نے کس بات پر اس کی ضمانت دی تھی. حضرت ابوذر نے کہا اگر میں اس کی ضمانت نہ دیتا تو مجھے اس بات کا ڈر تھا کہ کوئی یہ نہ کہے کہ لوگوں میں سے اب بھلائی اٹھا دی گئی ۔ کوئی اجنبی مدینہ والوں سے کبھی پناہ نہ مانگتا ۔
اتنے میں وہ دونوں شخص جن کا باپ قتل ہوا تھا وہ آگے آئے اور کہا امیرالمومنین ہم ایسے شخص کو معاف کرتے ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ دنیا یہ سمجھے کہ لوگوں سے عفو اور درگزر ختم ہوگیا ہے ۔
اس وجہ سے وہ شخص زندہ بچ گیا کیونکہ اس نے اپنے وعدہ کی پابندی نے سب کو متاثر کر دیا تھا ۔
اس واقعے سے ہمیں پانچ سبق ملتے ہیں ۔
بےشک ہمیں جتنی بھی بڑی مصیبت پہنچی ہو اگر دوسرے انسان کی غلطی نہیں ہے یا دوسرا انسان قابل رحم ہے تو اسے معاف کر دینا چاہیے ۔
ہر حال میں انصاف سے کام لینا چاہیے ۔
مسلمان کو کسی کا اعتماد نہیں توڑنا چاہیے ۔
ایک مسلمان کو دوسرے مسلمان کے ساتھ جھوٹ نہیں بولنا چاہیے ۔
ہمیں اپنی جان خطرے میں ڈال کر کسی دوسرے مسلمان کی مدد کرنے کی ضرورت پڑ جائے تو ہمیں ضرور مدد کرنی چاہئے ۔
4 تبصرے “ایک واقعہ ۔۔۔۔۔ پانچ سبق”