لڑکوں کی تعلیم و تربیت : ثمینہ تقی

معزز و محترم قاری صاحب اسلام علیکم!
میرا آج کا زیر غور موضوع ہے۔ “لڑکوں کی تعلیم و تربیت” یوں تو بے شمار موضوعات ایسے ہیں جن پر غوروفکر کرنا ضروری ہے لیکن کبھی کبھی انسان ان چیزوں پر غور نہیں کرتا جو اس کے سامنے ہوتی ہیں یا پھر اس کی اہمیت کا اندازہ نہیں ہوتا۔

اللہ تعالی نے انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ, علم کی بدولت عطا فرمایا ہے جس کا قرآن میں واضح بیان موجود ہے اور ہم سب بھی تعلیم کی اہمیت سے بخوبی واقف ہیں اس میں کچھ شک نہیں کہ تعلیم ہمیں شعور دیتی ہے اور زندگی گزارنے کے ڈھنگ سکھاتی ہے لیکن ذرا سوچئے ! کیا وہ تعلیم اثرانداز ہوگی جس میں تربیت کا عنصر کارفرما نہ ہو۔ تو جی ہاں آج میں آپ کو یہی بتانا چاہتی ہوں کہ تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت بہت ضروری ہے تاکہ انسان کے اچھے عمل سے خدا اور اس کی مخلوق راضی ہو جائے۔

ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی تعلیم اور لڑکیوں کی تربیت پر زور دیا جاتا ہے۔لڑکیوں کی تعلیم سے زیادہ لڑکوں کی تعلیم کو اہمیت دی جاتی ہے تاکہ وہ اچھی نوکری حاصل کر سکیں معاشرے میں اچھا مقام حاصل کر سکے وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ لڑکیوں کی تربیت پر زیادہ زور دیا جاتا ہے کہ انہیں سسرال جانا ہےاور جب لڑکیوں کی شادی ہوتی ہے تو سب یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ لڑکیوں کو سمجھا کر بھیجنا ہے۔

اب وہی آپ کا گھر ہے اورسب کا خیال رکھنا ہےاور بہت کچھ ۔۔۔ لیکن جہاں تک لڑکوں کی بات آتی ہے تو ان کی تعلیم پر زور دیا جاتا ہے تاکہ اچھا کما سکیں اور گھر والوں کا دست و بازو بن سکیں اگر غور کیا جائے تو لڑکوں کی تعلیم میں تربیت کا عنصر بہت کم نظر آتا ہے اور کہیں تو بالکل نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔

کیونکہ آپ نے کبھی کبھی یہ بھی سنا ہوگا بلکہ شاید خود بھی کسی کو یہ کہا ہوگا یہ تو پڑھا لکھا جاھل انسان ہے اس جملے پر اگر غور کیا جائے تو مطلب بہت آسان سمجھا جائے گا یعنی وہ شخص پڑھا لکھا تو ہے لیکن اس میں بات کرنے کا سلیقہ نہیں ہے یا رشتے نبھانے اور معاشرتی تعلقات استوار رکھنے کا سلیقہ نہیں ہے۔جس کی وجہ سے لوگ اسے پسند نہیں کرتے۔

جہاں تک تربیت کی بات کی جائے تو یہ گھر سے شروع ہوتی ہے اور اگر یہ کہا جائے کہ ماں کی گود پہلی درسگاہ ہے اور تربیت کی جگہ ہے تو غلط نہ ہوگا۔ہمارے معاشرے میں لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کا فقدان ہے۔معاشرے میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان پر غور کیا جائے تو سارا قصور لڑکیوں کا نہیں ہوتا بلکہ لڑکوں کا بھی اتنا ہی قصور ہوتا ہے۔

ہمیں لڑکوں کی تعلیم کے ساتھ تربیت کرنی ضروری ہے تاکہ وہ ایک مثالی بیٹا ،شوہر اور باپ بن سکیں۔ جب کسی لڑکے یا لڑکی کی شادی ہوتی ہے تو لاکھوں کروڑوں روپے خرچ کیے جاتے ہیں۔ہر ماں اپنے بیٹے کے لئے چاند سی بہو تلاش کرتی ہے۔

چاہے خود کا بیٹا جیسا بھی ہو اور ساری توقعات اس لڑکی سے کی جاتی ہیں جو اپنا سب کچھ چھوڑ کر اپنا بچپن, لڑکپن خوبصورت رشتے اور اپنی یادیں چھوڑ کر آپ کے ساتھ ساری زندگی گزارنے آتی ہے۔آپ کے ماں، باپ، بہن ،بھائیوں، شوہر اور اولاد کی خدمت کرتی ہے اور کسی ایک دن بھی اپنی خدمات سے انکار نہیں کرتی۔

ذرا سوچئے! جب کوئی بیٹی بہو بن کر کسی نئے گھر میں جاتی ہے تو اسے کئی لوگ ملتے ہیں جنہیں سمجھنے کے لیے اسے کافی وقت چاہیے جب کہ اس گھر کے کئی افراد چند دنوں میں اس لڑکی کی عادتوں اور مزاج سے واقف ہوجاتے ہیں لیکن لڑکی چونکہ اکیلی اتنے سارے افراد کو سمجھ رہی ہوتی ہے تو اس کا حق ہے کہ اسے زیادہ سے زیادہ وقت دیا جائے تاکہ پورے خاندان کو سمجھ سکے بس یہی وہ نقطہ ہے وہ مقام ہے جہاں سے لڑکے کی تربیت کا پتہ چلتا ہے۔

اس لیے اگر شادی کے وقت صرف لڑکیوں کو ہی نہیں بلکہ لڑکوں کو بھی سمجھایا جائے یا ان کی تربیت ایسی ہو جس سے انھیں اس بات کا احساس ہو کہ وہ کسی کی بیٹی کو اپنے نکاح میں لے کر ایک خوب صورت رشتہ بنا کر لائے ہیں اور اس کے احساسات ,جذبات اور اس کے حقوق کا خیال کیسے رکھنا ہے تو شاید معاشرے میں بڑھتے ہوئے طلاق کے رجحان کو روکا جا سکے۔

کیوں کہ ہمارے معاشرے میں کسی کی بیٹی کو بیٹی تو کہا جاتا ہے لیکن حقیقت میں وہ بہو ہوتی ہے کیونکہ بیٹی تو صرف اپنی ہوتی ہے۔ اگر لڑکیوں کے ساتھ ساتھ لڑکوں کی تربیت بھی اچھی کی جائے تو انہیں یہ باور کرانے کی ضرورت نہیں ہوگی کہ والدین, بہن ,بھائیوں اور بیوی کے کیا حقوق ہیں۔

کاش کہ ہمارے معاشرے کے بیٹوں بھائیوں کو یہ سمجھ آجائے آئے کہ ہم اپنے گھر کے صرف سرپرست ہی نہیں بلکہ بحیثیت بیٹا, بھائی اور شوہر اپنے والدین کے خدمت گزار اولاد ہیں۔بہن سے بے پناہ پیار اور شفقت کرنے والے بھائی اور بیوی بچوں سے بے پناہ محبت اور دکھ سکھ کے ساتھی ہیں تو یہ احساس آپ کی تربیت کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کافی ہے۔

کیونکہ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے۔” میاں بیوی ایک دوسرے کا لباس ہیں”

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے اپنےحقوق و فرائض پہچاننے اور ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ ( آمین ثم آمین)

Leave a Reply